احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

43: باب مَا جَاءَ فِي أَكْلِ الزَّيْتِ
باب: زیتون کا تیل کھانے کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 1851
حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن زيد بن اسلم، عن ابيه، عن عمر بن الخطاب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كلوا الزيت وادهنوا به فإنه من شجرة مباركة "، قال ابو عيسى: هذا حديث لا نعرفه إلا من حديث عبد الرزاق، عن معمر وكان عبد الرزاق يضطرب في رواية هذا الحديث فربما ذكر فيه، عن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم وربما رواه على الشك، فقال: احسبه عن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم وربما قال، عن زيد بن اسلم، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زیتون کا تیل کھاؤ اور اسے (جسم پر) لگاؤ، اس لیے کہ وہ مبارک درخت ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس حدیث کو ہم صرف عبدالرزاق کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ معمر سے روایت کرتے ہیں،
۲- عبدالرزاق اس حدیث کی روایت کرنے میں مضطرب ہیں، کبھی وہ اسے مرفوع روایت کرتے ہیں اور کبھی شک کے ساتھ روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں اسے عمر رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، اور کبھی کہتے ہیں: زید بن اسلم سے روایت ہے، وہ اپنے باپ سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسل طریقہ سے روایت کرتے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الأطعمة 34 (3319)، (تحفة الأشراف: 10392) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: کیونکہ یہ درخت شام کی سر زمین میں کثرت سے پایا جاتا ہے، اور شام وہ علاقہ ہے جس کے متعلق رب العالمین کا ارشاد ہے کہ ہم نے اس سر زمین کو ساری دنیا کے لیے بابرکت بنایا ہے، کہا جاتا ہے کہ اس سر زمین میں ستر سے زیادہ نبی اور رسول پیدا ہوئے انہیں میں ابراہیم علیہ السلام بھی ہیں، چوں کہ یہ درخت ایک بابرکت سر زمین میں اگتا ہے، اس لیے بابرکت ہے، اس لحاظ سے اس کا پھل اور تیل بھی برکت سے خالی نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1319)

سنن ترمذي حدیث نمبر: 1851M
حدثنا ابو داود سليمان بن معبد، حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن زيد بن اسلم، عن ابيه عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه ولم يذكر فيه عن عمر.
اس سند سے معمر نے بسند «زيد بن أسلم عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، اس میں انہوں نے عمر کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 18436) (صحیح مرسل)

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1319)

Share this: