احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

64: باب مَا جَاءَ كَيْفَ تُرْمَى الْجِمَارُ
باب: جمرات کی رمی کیسے کی جائے؟
سنن ترمذي حدیث نمبر: 901
حدثنا يوسف بن عيسى، حدثنا وكيع، حدثنا المسعودي، عن جامع بن شداد ابي صخرة، عن عبد الرحمن بن يزيد، قال: لما اتى عبد الله جمرة العقبة استبطن الوادي واستقبل القبلة، وجعل يرمي الجمرة على حاجبه الايمن، ثم رمى بسبع حصيات يكبر مع كل حصاة، ثم قال: " والله الذي لا إله إلا هو، من هاهنا رمى الذي انزلت عليه سورة البقرة ". حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن المسعودي بهذا الإسناد نحوه، قال: وفي الباب عن الفضل بن عباس، وابن عباس، وابن عباس، وجابر. قال ابو عيسى: حديث ابن مسعود حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم يختارون ان يرمي الرجل من بطن الوادي بسبع حصيات، يكبر مع كل حصاة، وقد رخص بعض اهل العلم إن لم يمكنه ان يرمي من بطن الوادي رمى من حيث قدر عليه، وإن لم يكن في بطن الوادي.
عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ جب عبداللہ (عبداللہ بن مسعود) جمرہ عقبہ کے پاس آئے تو وادی کے بیچ میں کھڑے ہوئے اور قبلہ رخ ہو کر اپنے داہنے ابرو کے مقابل رمی شروع کی۔ پھر سات کنکریوں سے رمی کی۔ ہر کنکری پر وہ اللہ اکبر کہتے تھے، پھر انہوں نے کہا: اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس ذات نے بھی یہیں سے رمی کی جس پر سورۃ البقرہ نازل کی گئی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں فضل بن عباس، ابن عباس، ابن عمر اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان کے نزدیک پسندیدہ یہی ہے کہ آدمی بطن وادی میں کھڑے ہو کر سات کنکریوں سے رمی کرے اور ہر کنکری پر اللہ اکبر کہے،
۴- اور بعض اہل علم نے اجازت دی ہے کہ اگر بطن وادی سے رمی کرنا ممکن نہ ہو تو ایسی جگہ سے کرے جہاں سے وہ اس پر قادر ہو گو وہ بطن وادی میں نہ ہو۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحج 135 (1147)، و 138 (1750)، صحیح مسلم/الحج 50 (1296)، سنن ابی داود/ الحج 78 (1974)، سنن النسائی/المناسک 226 (3072)، سنن ابن ماجہ/المناسک 64 (3030) (تحفة الأشراف: 9382)، مسند احمد (1/415، 427، 430، 432، 436، 456، 458) (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3030)

Share this: