احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

5: باب مَا جَاءَ فِي دَرْءِ الْحَدِّ عَنِ الْمُعْتَرِفِ إِذَا رَجَعَ
باب: مجرم اپنے اقرار سے پھر جائے تو اس سے حد ساقط کرنے کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 1428
حدثنا ابو كريب، حدثنا عبدة بن سليمان , عن محمد بن عمرو , حدثنا ابو سلمة، عن ابي هريرة، قال: جاء ماعز الاسلمي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: إنه قد زنى فاعرض عنه , ثم جاء من شقه الآخر , فقال: يا رسول الله , إنه قد زنى، فاعرض عنه , ثم جاء من شقه الآخر , فقال: يا رسول الله , إنه قد زنى , فامر به في الرابعة فاخرج إلى الحرة , فرجم بالحجارة , فلما وجد مس الحجارة فر يشتد , حتى مر برجل معه لحي جمل فضربه به , وضربه الناس حتى مات , فذكروا ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم , انه فر حين وجد مس الحجارة ومس الموت , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " هلا تركتموه ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن , وقد روي من غير وجه , عن ابي هريرة , وروي هذا الحديث عن الزهري , عن ابي سلمة , عن جابر بن عبد الله , عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ماعز اسلمی رضی الله عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اعتراف کیا کہ میں نے زنا کیا ہے، آپ نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا، پھر وہ دوسری طرف سے آئے اور بولے: اللہ کے رسول! میں نے زنا کیا ہے، آپ نے پھر ان کی طرف سے منہ پھیر لیا، پھر وہ دوسری طرف سے آئے اور بولے: اللہ کے رسول! میں نے زنا کیا ہے، پھر چوتھی مرتبہ اعتراف کرنے پر آپ نے رجم کا حکم دے دیا، چنانچہ وہ ایک پتھریلی زمین کی طرف لے جائے گئے اور انہیں رجم کیا گیا، جب انہیں پتھر کی چوٹ لگی تو دوڑتے ہوئے بھاگے، حتیٰ کہ ایک ایسے آدمی کے قریب سے گزرے جس کے پاس اونٹ کے جبڑے کی ہڈی تھی، اس نے ماعز کو اسی سے مارا اور لوگوں نے بھی مارا یہاں تک کہ وہ مر گئے، پھر لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ جب پتھر اور موت کی تکلیف انہیں محسوس ہوئی تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگوں نے اسے کیوں نہیں چھوڑ دیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- ابوہریرہ رضی الله عنہ سے کئی اور سندوں سے بھی مروی ہے، یہ حدیث زہری سے بھی مروی ہے، انہوں نے اسے بطریق: «عن أبي سلمة عن جابر بن عبد الله عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی طرح روایت کی ہے (جو آگے آ رہی ہے)۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحدود 22 (6815)، والأحکام 19 (7167)، صحیح مسلم/الحدود 5 (16)، سنن ابن ماجہ/الحدود 9 (2554)، (تحفة الأشراف: 15061)، و مسند احمد (2/286-287، 450، 453) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں: «هلا تركتموه لعله أن يتوب فيتوب الله عليه» یعنی اسے تم لوگوں نے کیوں نہیں چھوڑ دیا، ہو سکتا ہے وہ اپنے اقرار سے پھر جاتا اور توبہ کرتا، پھر اللہ اس کی توبہ قبول کرتا (اسی ٹکڑے میں باب سے مطابقت ہے)۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (2554)

Share this: