احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1: باب فِي فَاتِحَةِ الْكِتَابِ
باب: سورۃ فاتحہ کی قرأت کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2927
حدثنا علي بن حجر، اخبرنا يحيى بن سعيد الاموي، عن ابن جريج، عن ابن ابي مليكة، عن ام سلمة، قالت: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقطع قراءته، يقول: الحمد لله رب العالمين سورة الفاتحة آية 2 ثم يقف الرحمن الرحيم سورة الفاتحة آية 3 ثم يقف، وكان يقرؤها مالك يوم الدين سورة الفاتحة آية 4 "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، وبه يقرا ابو عبيد ويختاره، وهكذا روى يحيى بن سعيد الاموي، وغيره عن ابن جريج، عن ابن ابي مليكة، عن ام سلمة، وليس إسناده بمتصل، لان الليث بن سعد روى هذا الحديث عن ابن ابي مليكة، عن يعلى بن مملك، عن ام سلمة، انها وصفت قراءة النبي صلى الله عليه وسلم حرفا حرفا، وحديث الليث اصح، وليس في حديث الليث وكان يقرا مالك يوم الدين سورة الفاتحة آية 4.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے، آپ: «الحمد لله رب العالمين» پڑھتے، پھر رک جاتے، پھر «الرحمن الرحيم» پڑھتے پھر رک جاتے، اور «ملك يوم الدين» پڑھتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- ابو عبید بھی یہی پڑھتے تھے اور اسی کو پسند کرتے تھے ۲؎،
۳- یحییٰ بن سعید اموی اور ان کے سوا دوسرے لوگوں نے ابن جریج سے اور ابن جریج نے ابن ابی ملیکہ کے واسطہ سے ام سلمہ سے اسی طرح روایت کی ہے، اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے، کیونکہ لیث بن سعد نے یہ حدیث ابن ابی ملیکہ سے ابن ابی ملیکہ نے یعلیٰ بن مملک سے انہوں نے ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت کی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کی کیفیت ایک ایک حرف الگ کر کے بیان کی۔ لیث کی حدیث زیادہ صحیح ہے اور لیث کی حدیث میں یہ ذکر نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم «ملك يوم الدين» پڑھتے تھے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحروف والقراءت (4001) (تحفة الأشراف: 18183) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یعنی «مالک یوم الدین» کی جگہ «ملک یوم الدین» پڑھتے تھے۔
۲؎: یعنی: ابوعبید قاسم بن سلام «مالک یوم الدین» کے بجائے «ملک یوم الدین» کو پڑھنا پسند کرتے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (343) ، المشكاة (2205) ، صفة الصلاة، مختصر الشمائل (270)

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
(2927) إسناده ضعيف / د 4001 ¤ ابن جريح عنعن (تقدم:674) وحديث أحمد (288/6، الموسوعة الحديثية 46/44 ح 26451) يغني عنه

Share this: