احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

30: باب مَا جَاءَ فِي الْكُحْلِ لِلصَّائِمِ
باب: روزہ دار کے سرمہ لگانے کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 726
حدثنا عبد الاعلى بن واصل الكوفي، حدثنا الحسن بن عطية، حدثنا ابو عاتكة، عن انس بن مالك، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: اشتكت عيني، " افاكتحل وانا صائم ؟ قال: نعم ". قال: وفي الباب عن ابي رافع. قال ابو عيسى: حديث انس حديث ليس إسناده بالقوي، ولا يصح عن النبي صلى الله عليه وسلم في هذا الباب شيء، وابو عاتكة يضعف، واختلف اهل العلم في الكحل للصائم فكرهه بعضهم، وهو قول سفيان، وابن المبارك، واحمد، وإسحاق، ورخص بعض اهل العلم في الكحل للصائم، وهو قول الشافعي.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر پوچھا: میری آنکھ آ گئی ہے، کیا میں سرمہ لگا لوں، میں روزے سے ہوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں (لگا لو)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس کی حدیث کی سند قوی نہیں ہے،
۲- اس باب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی کوئی چیز صحیح نہیں،
۳- ابوعاتکہ ضعیف قرار دیے جاتے ہیں،
۴- اس باب میں ابورافع سے بھی روایت ہے،
۵- صائم کے سرمہ لگانے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض نے اسے مکروہ قرار دیا ہے ۱؎ یہ سفیان ثوری، ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے اور بعض اہل علم نے روزہ دار کو سرمہ لگانے کی رخصت دی ہے اور یہ شافعی کا قول ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 922) (ضعیف الإسناد) (سند میں ابو عاتک طریف سلمان ضعیف راوی ہے)

وضاحت: ۱؎: ان کی دلیل معبد بن ہوذہ کی حدیث ہے جس کی تخریج ابوداؤد نے کی ہے، اس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشک ملا ہوا سرمہ سوتے وقت لگانے کا حکم دیا اور فرمایا صائم اس سے پرہیز کرے، لیکن یہ حدیث منکر ہے، جیسا کہ ابوداؤد نے یحییٰ بن معین کے حوالے سے نقل کیا ہے، لہٰذا اس حدیث کے رو سے صائم کے سرمہ لگانے کی کراہت پر استدلال صحیح نہیں، راجح یہی ہے کہ صائم کے لیے بغیر کراہت کے سرمہ لگانا جائز ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
(726) إسناده ضعيف ¤ أابو عاتكه : ضعيف وبالغ السليماني فيه (تق:8193)

Share this: