احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

24: باب مَا جَاءَ كَيْفَ يُكْتَبُ إِلَى أَهْلِ الشِّرْكِ
باب: کفار و مشرکین کو کس انداز سے خط لکھا جائے؟
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2717
حدثنا سويد بن نضر، انبانا عبد الله بن المبارك، انبانا يونس، عن الزهري، اخبرني عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس، انه اخبره، ان ابا سفيان بن حرب اخبره، ان هرقل ارسل إليه في نفر من قريش وكانوا تجارا بالشام، فاتوه فذكر الحديث، قال: ثم دعا بكتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقرئ فإذا فيه " بسم الله الرحمن الرحيم، من محمد عبد الله ورسوله إلى هرقل عظيم الروم، السلام على من اتبع الهدى اما بعد " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو سفيان اسمه: صخر بن حرب.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ابوسفیان بن حرب رضی الله عنہ نے ان سے بیان کیا کہ وہ قریش کے کچھ تاجروں کے ساتھ شام میں تھے کہ ہرقل (شہنشاہ شام) نے انہیں بلا بھیجا، تو وہ سب اس کے پاس آئے، پھر سفیان نے آگے بات بڑھائی۔ کہا: پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا۔ پھر خط پڑھا گیا، اس میں لکھا تھا «بسم الله الرحمن الرحيم من محمد عبدالله ورسوله إلى هرقل عظيم الروم السلام على من اتبع الهدى أمابعد» میں شروع کرتا ہوں اس اللہ کے نام سے جو رحمان (بڑا مہربان) اور رحیم (نہایت رحم کرنے والا) ہے۔ یہ خط محمد کی جانب سے ہے جو اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اور ہرقل کے پاس بھیجا جا رہا ہے جو روم کے شہنشاہ ہیں۔ سلامتی ہے اس شخص کے لیے جو ہدایت کی پیروی کرے۔ امابعد: حمد و نعت کے بعد … الخ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ابوسفیان کا نام صخر بن حرب رضی الله عنہ تھا۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/بدء الوحی 1 (7)، والجھاد 102 (2941)، وتفسیر آل عمران 4 (4553)، صحیح مسلم/الجھاد 27 (1773)، سنن ابی داود/ الأدب 128 (5136) (تحفة الأشراف: 4850) (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: