احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

6: باب مَا جَاءَ فِيمَنْ رُضِخَ رَأْسُهُ بِصَخْرَةٍ
باب: جس کا سر پتھر سے کچل دیا گیا ہو اس کی دیت کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 1394
حدثنا علي بن حجر , حدثنا يزيد بن هارون , حدثنا همام , عن قتادة , عن انس , قال: خرجت جارية عليها اوضاح , فاخذها يهودي فرضخ راسها بحجر , واخذ ما عليها من الحلي , قال: فادركت وبها رمق , فاتي بها النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " من قتلك , افلان ؟ " قالت براسها: لا , قال: " ففلان , حتى سمي اليهودي " , فقالت براسها: اي نعم , قال: فاخذ فاعترف , فامر به رسول الله صلى الله عليه وسلم فرضخ راسه بين حجرين , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والعمل على هذا عند بعض اهل العلم , وهو قول: احمد , وإسحاق , وقال بعض اهل العلم: لا قود إلا بالسيف.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک لڑکی زیور پہنے ہوئے کہیں جانے کے لیے نکلی، ایک یہودی نے اسے پکڑ کر پتھر سے اس کا سر کچل دیا اور اس کے پاس جو زیور تھے وہ اس سے چھین لیا، پھر وہ لڑکی ایسی حالت میں پائی گئی کہ اس میں کچھ جان باقی تھی، چنانچہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، آپ نے اس سے پوچھا: تمہیں کس نے مارا ہے، فلاں نے؟ اس نے سر سے اشارہ کیا: نہیں، آپ نے پوچھا: فلاں نے؟ یہاں تک کہ اس یہودی کا نام لیا گیا (جس نے اس کا سر کچلا تھا) تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا یعنی ہاں! تو یہودی پکڑا گیا، اور اس نے اعتراف جرم کر لیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، اور اس کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، بعض اہل علم کہتے ہیں: قصاص صرف تلوار سے لیا جائے گا ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوصایا 5 (2746)، والطلاق 24 (تعلیقاً) والدیات 4 (6876)، و 5 (6877)، و 12 (6884)، صحیح مسلم/القسامة 3 (1672)، سنن ابی داود/ الدیات 10 (4527)، سنن النسائی/المحاربة 9 (4055)، والقسامة 13 (4745)، سنن ابن ماجہ/الدیات 24 (2665)، (تحفة الأشراف: 1391)، و مسند احمد (3/163، 183، 203، 267)، سنن الدارمی/الدیات 4 (2400) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یہ اہل کوفہ کا مذہب ہے جن میں امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب شامل ہیں ان کی دلیل نعمان بن بشیر کی روایت ہے جو ابن ماجہ میں «لا قود إلا بالسيف» کے الفاظ کے ساتھ وارد ہے، لیکن یہ روایت اپنے تمام طرق کے ساتھ ضعیف ہے بلکہ بقول ابوحاتم: منکر ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2665 - 2666)

Share this: