احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

56: باب مَا جَاءَ فِي ظَنِّ السُّوءِ
باب: بدگمانی کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 1988
حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إياكم والظن فإن الظن اكذب الحديث. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، قال: و سمعت عبد بن حميد يذكر عن بعض اصحاب سفيان، قال: قال سفيان: الظن ظنان: فظن إثم، وظن ليس بإثم، فاما الظن الذي هو إثم فالذي يظن ظنا ويتكلم به، واما الظن الذي ليس بإثم فالذي يظن ولايتكلم به.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدگمانی سے بچو، اس لیے کہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- سفیان کہتے ہیں کہ ظن دو طرح کا ہوتا ہے، ایک طرح کا ظن گناہ کا سبب ہے اور ایک طرح کا ظن گناہ کا سبب نہیں ہے، جو ظن گناہ کا سبب ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کسی کے بارے میں گمان کرے اور اسے زبان پر لائے، اور جو ظن گناہ کا سبب نہیں ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کسی کے بارے میں گمان کرے اور اسے زبان پر نہ لائے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح 45 (5143)، والأدب 57 (6064)، و58 (6066)، والفرائض 2 (6724)، صحیح مسلم/البر والصلة 9 (2563)، سنن ابی داود/ الأدب 56 (4917) (تحفة الأشراف: 13720)، و مسند احمد (2/245، 312، 342، 465، 470، 482) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اسی حدیث میں بدگمانی سے بچنے کی سخت تاکید ہے، کیونکہ یہ جھوٹ کی بدترین قسم ہے اس لیے عام حالات میں ہر مسلمان کی بابت اچھا خیال رکھنا ضروری ہے سوائے اس کے کہ کوئی واضح ثبوت اس کے برعکس موجود ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح غاية المرام (417)

Share this: