احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1: باب مَا جَاءَ فِي الْوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ
باب: ایک تہائی مال کی وصیت کے جواز کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2116
حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن عامر بن سعد بن ابي وقاص، عن ابيه، قال: مرضت عام الفتح مرضا اشفيت منه على الموت، فاتاني رسول الله صلى الله عليه وسلم يعودني، فقلت: يا رسول الله، إن لي مالا كثيرا، وليس يرثني إلا ابنتي افاوصي بمالي كله، قال: " لا "، قلت: فثلثي مالي، قال: " لا "، قلت: فالشطر، قال: " لا "، قلت: فالثلث، قال: " الثلث والثلث كثير، إنك إن تدع ورثتك اغنياء، خير من ان تدعهم عالة يتكففون الناس، وإنك لن تنفق نفقة إلا اجرت فيها حتى اللقمة ترفعها إلى في امراتك "، قال: قلت: يا رسول الله، اخلف عن هجرتي، قال: " إنك لن تخلف بعدي فتعمل عملا تريد به وجه الله إلا ازددت به رفعة ودرجة ولعلك ان تخلف حتى ينتفع بك اقوام ويضر بك آخرون، اللهم امض لاصحابي هجرتهم، ولا تردهم على اعقابهم، لكن البائس سعد ابن خولة يرثي له رسول الله صلى الله عليه وسلم ان مات بمكة "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابن عباس، وهذا حديث حسن صحيح، وقد روي هذا الحديث من غير وجه، عن سعد بن ابي وقاص، والعمل على هذا عند اهل العلم، انه ليس للرجل ان يوصي باكثر من الثلث، وقد استحب بعض اهل العلم ان ينقص من الثلث لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم والثلث كثير.
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال میں ایسا بیمار پڑا کہ موت کے قریب پہنچ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کو آئے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس بہت مال ہے اور ایک لڑکی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں ہے، کیا میں اپنے پورے مال کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، میں نے عرض کیا: دو تہائی مال کی؟ آپ نے فرمایا: نہیں، میں نے عرض کیا: آدھا مال کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: نہیں، میں نے عرض کیا: ایک تہائی کی؟ آپ نے فرمایا: ایک تہائی کی وصیت کرو اور ایک تہائی بھی بہت ہے ۱؎، تم اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑو یہ اس بات سے بہتر ہے کہ تم ان کو محتاج و غریب چھوڑ کر جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھیریں، تم جو بھی خرچ کرتے ہو اس پر تم کو ضرور اجر ملتا ہے، یہاں تک کہ اس لقمہ پر بھی جس کو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں تو اپنی ہجرت سے پیچھے رہ جاؤں گا؟ آپ نے فرمایا: تم میرے بعد زندہ رہ کر اللہ کی رضا مندی کی خاطر جو بھی عمل کرو گے اس کی وجہ سے تمہارے درجات میں بلندی اور اضافہ ہوتا جائے گا، شاید کہ تم میرے بعد زندہ رہو یہاں تک کہ تم سے کچھ قومیں نفع اٹھائیں گی اور دوسری نقصان اٹھائیں گی ۲؎، (پھر آپ نے دعا کی) اے اللہ! میرے صحابہ کی ہجرت برقرار رکھ اور ایڑیوں کے بل انہیں نہ لوٹا دنیا لیکن بیچارے سعد بن خولہ جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افسوس کرتے تھے، (ہجرت کے بعد) مکہ ہی میں ان کی وفات ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- سعد بن ابی وقاص سے یہ حدیث کئی سندوں سے آئی ہے،
۳- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۴- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت کرنا آدمی کے لیے جائز نہیں ہے،
۴- بعض اہل علم ایک تہائی سے کم کی وصیت کرنے کو مستحب سمجھتے ہیں اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک تہائی بھی زیادہ ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: 975 (تحفة الأشراف: 3890) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صاحب مال ورثاء کو محروم رکھنے کی کوشش نہ کرے، اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ اپنے تہائی مال کی وصیت کر سکتا ہے، اس سے زیادہ کی وصیت نہیں کر سکتا ہے، البتہ ورثاء اگر زائد کی اجازت دیں تو پھر کوئی حرج کی بات نہیں ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ ورثاء کا مالدار رہنا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچنا بہت بہتر ہے۔
۲؎: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن ابی وقاص کے متعلق جس امید کا اظہار کیا تھا وہ پوری ہوئی، چنانچہ سعد اس مرض سے شفاء یاب ہوئے اور آپ کے بعد کافی لمبی عمر پائی، ان سے ایک طرف مسلمانوں کو فائدہ پہنچا تو دوسری جانب کفار کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا، ان کا انتقال مشہور قول کے مطابق ۵۰ ھ میں ہوا تھا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2708)

Share this: