احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

99: باب فِي فَضْلِ التَّوْبَةِ وَالاِسْتِغْفَارِ وَمَا ذُكِرَ مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ لِعِبَادِهِ
باب: توبہ و استغفار کی فضیلت اور بندوں پر اللہ کی رحمتوں کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 3535
حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن عاصم بن ابي النجود، عن زر بن حبيش، قال: اتيت صفوان بن عسال المرادي اساله عن المسح على الخفين، فقال: ما جاء بك يا زر ؟ فقلت: ابتغاء العلم، فقال: " إن الملائكة لتضع اجنحتها لطالب العلم رضا بما يطلب، فقلت: إنه حك في صدري المسح على الخفين بعد الغائط والبول وكنت امرا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فجئت اسالك هل سمعته يذكر في ذلك شيئا ؟ قال: نعم، " كان يامرنا إذا كنا سفرا او مسافرين ان لا ننزع خفافنا ثلاثة ايام ولياليهن إلا من جنابة، لكن من غائط وبول ونوم ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) فقلت: هل سمعته يذكر في الهوى شيئا ؟ قال: نعم، فقلت: هل سمعته يذكر في الهوى شيئا ؟ قال: نعم، كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر فبينا نحن عنده إذ ناداه اعرابي بصوت له جهوري، يا محمد، فاجابه رسول الله صلى الله عليه وسلم نحوا من صوته هاؤم، فقلنا له: ويحك، اغضض من صوتك فإنك عند النبي صلى الله عليه وسلم وقد نهيت عن هذا، فقال: والله لا اغضض، قال الاعرابي: المرء يحب القوم ولما يلحق بهم ؟ قال النبي صلى الله عليه وسلم: " المرء مع من احب يوم القيامة "، فما زال يحدثنا حتى ذكر بابا من قبل المغرب مسيرة سبعين عاما عرضه، او يسير الراكب في عرضه اربعين او سبعين عاما، قال سفيان: قبل الشام، خلقه الله يوم خلق السموات والارض مفتوحا يعني للتوبة، لا يغلق حتى تطلع الشمس منه ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.
زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں صفوان بن عسال مرادی رضی الله عنہ کے پاس موزوں پر مسح کا مسئلہ پوچھنے آیا، انہوں نے (مجھ سے) پوچھا اے زر کون سا جذبہ تمہیں لے کر یہاں آیا ہے، میں نے کہا: علم کی تلاش و طلب مجھے یہاں لے کر آئی ہے، انہوں نے کہا: فرشتے علم کی طلب و تلاش سے خوش ہو کر طالب علم کے لیے اپنے پر بچھاتے ہیں، میں نے ان سے کہا: پیشاب پاخانے سے فراغت کے بعد موزوں پر مسح کی بات میرے دل میں کھٹکی (کہ مسح کریں یا نہ کریں) میں خود بھی صحابی رسول ہوں، میں آپ سے یہ پوچھنے آیا ہوں کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سلسلے میں کوئی بات بیان کرتے ہوئے سنی ہے؟ کہا: جی ہاں (سنی ہے) جب ہم سفر پر ہوتے یا سفر کرنے والے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم سفر کے دوران تین دن و رات اپنے موزے نہ نکالیں، مگر غسل جنابت کے لیے، پاخانہ پیشاب کر کے اور سو کر اٹھنے پر موزے نہ نکالیں، (پہنے رہیں، مسح کا وقت آئے ان پر مسح کر لیں) میں نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انسان کی خواہش و تمنا کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کر رہے تھے، اس دوران کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے ایک اعرابی نے آپ کو یا محمد! کہہ کر بلند آواز سے پکارا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسی کی آواز میں جواب دیا، آ جاؤ (میں یہاں ہوں) ہم نے اس سے کہا: تمہارا ناس ہو، اپنی آواز دھیمی کر لو، کیونکہ تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہو، اور تمہیں اس سے منع کیا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بلند آواز سے بولا جائے، اعرابی نے کہا: (نہ) قسم اللہ کی میں اپنی آواز پست نہیں کروں گا، اس نے «المرء يحب القوم ولما يلحق بهم» ۱؎ کہہ کر آپ سے اپنی انتہائی محبت و تعلق کا اظہار کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «المرء مع من أحب يوم القيامة» جو شخص جس شخص سے زیادہ محبت کرتا ہے قیامت کے دن وہ اسی کے ساتھ رہے گا۔ وہ ہم سے (یعنی زر کہتے ہیں ہم سے صفوان بن عسال) حدیث بیان کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے پچھمی سمت (مغرب کی طرف) میں ایک ایسے دروازے کا ذکر کیا جس کی چوڑائی ستر سال کی مسافت کے برابر ہے (راوی کو شک ہو گیا ہے یہ کہا یا یہ کہا) کہ دروازے کی چوڑائی اتنی ہو گی ؛ سوار اس میں چلے گا تو چالیس سال یا ستر سال میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچے گا، سفیان (راوی) کہتے ہیں: یہ دروازہ شام کی جانب پڑے گا، جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے تبھی اللہ نے یہ دروازہ بھی بنایا ہے اور یہ دروازہ توبہ کرنے والوں کے لیے کھلا ہوا ہے اور (توبہ کا یہ دروازہ) اس وقت تک بند نہ ہو گا جب تک کہ سورج اس دروازہ کی طرف سے (یعنی پچھم سے) طلوع نہ ہونے لگے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم 96 (حسن)

وضاحت: ۱؎: آدمی کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے لیکن وہ ان کے درجے تک نہیں پہنچ پاتا۔

قال الشيخ الألباني: حسن، التعليق الرغيب (4 / 73) ، وتقدم بعضه برقم (96)

Share this: