احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

55: باب مَا يَقُولُ إِذَا أَكَلَ طَعَامًا
باب: کھانا کھا کر کیا پڑھے؟
سنن ترمذي حدیث نمبر: 3455
حدثنا احمد بن منيع، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، حدثنا علي بن زيد، عن عمر وهو ابن ابي حرملة، عن ابن عباس، قال: دخلت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم انا وخالد بن الوليد على ميمونة فجاءتنا بإناء من لبن، فشرب رسول الله صلى الله عليه وسلم، وانا على يمينه وخالد على شماله، فقال لي: " الشربة لك، فإن شئت آثرت بها خالدا "، فقلت: ما كنت اوثر على سؤرك احدا، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من اطعمه الله الطعام فليقل: اللهم بارك لنا فيه واطعمنا خيرا منه، ومن سقاه الله لبنا، فليقل: اللهم بارك لنا فيه وزدنا منه ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ليس شيء يجزئ مكان الطعام والشراب غير اللبن ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وقد روى بعضهم هذا الحديث عن علي بن زيد، فقال: عن عمر بن حرملة، وقال بعضهم: عمرو بن حرملة، ولا يصح.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں اور خالد بن ولید رضی الله عنہ (دونوں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ام المؤمنین میمونہ رضی الله عنہا کے گھر میں داخل ہوئے، وہ ایک برتن لے کر ہم لوگوں کے پاس آئیں، اس برتن میں دودھ تھا میں آپ کے دائیں جانب بیٹھا ہوا تھا اور خالد آپ کے بائیں طرف تھے، آپ نے دودھ پیا پھر مجھ سے فرمایا: پینے کی باری تو تمہاری ہے، لیکن تم چاہو تو اپنا حق (اپنی باری) خالد بن ولید کو دے دو، میں نے کہا: آپ کا جوٹھا پینے میں اپنے آپ پر میں کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے اللہ کھانا کھلائے، اسے کھا کر یہ دعا پڑھنی چاہیئے: «اللهم بارك لنا فيه وأطعمنا خيرا منه» اے اللہ! ہمیں اس میں برکت اور مزید اس سے اچھا کھلا، اور جس کو اللہ دودھ پلائے اسے کہنا چاہیئے «اللهم بارك لنا فيه وزدنا منه» اے اللہ! ہمیں اس میں برکت اور مزید اس سے اچھا کھلا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دودھ کے سوا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو کھانے اور پینے (دونوں) کی جگہ کھانے و پینے کی ضرورت پوری کر سکے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- بعض محدثین نے یہ حدیث علی بن زید سے روایت کی ہے، اور انہوں نے عمر بن حرملہ کہا ہے۔ جب کہ بعض نے عمر بن حرملہ کہا ہے اور عمرو بن حرملہ کہنا صحیح نہیں ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأشربة 21 (3730)، سنن ابن ماجہ/الأطعمة 35 (3322) (تحفة الأشراف: 6298)، و مسند احمد (1/225) (حسن) (سند میں ’’ علی بن زید بن جدعان ‘‘ ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طریق سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود رقم 2320، والصحیحة 2320، وتراجع الألبانی 426)

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (3322)

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
(3455) إسناده ضعيف / د 3730 ¤ عمر بن حرملة: مجهول (د 3730) وللحديث شواهد ضعيفة عند ابن ماجه (3426) وغيره

Share this: