احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

59: باب مِنْهُ
باب:۔۔۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 3462
حدثنا عبد الله بن ابي زياد، حدثنا سيار، حدثنا عبد الواحد بن زياد، عن عبد الرحمن بن إسحاق، عن القاسم بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن ابن مسعود، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لقيت إبراهيم ليلة اسري بي فقال: يا محمد اقرئ امتك مني السلام، واخبرهم ان الجنة طيبة التربة عذبة الماء، وانها قيعان، وان غراسها سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله اكبر ". قال: وفي الباب، عن ابي ايوب. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه من حديث ابن مسعود.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس رات مجھے معراج کرائی گئی، اس رات میں ابراہیم علیہ السلام سے ملا، ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: اے محمد! اپنی امت کو میری جانب سے سلام کہہ دینا اور انہیں بتا دینا کہ جنت کی مٹی بہت اچھی (زرخیز) ہے، اس کا پانی بہت میٹھا ہے، اور وہ خالی پڑی ہوئی ہے ۱؎ اور اس کی باغبانی: «سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر» سے ہوتی ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث ابن مسعود رضی الله عنہ کی روایت ہے اس سند سے حسن غریب ہے،
۲- اس باب میں ابوایوب انصاری رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9365) (حسن)

وضاحت: ۱؎: جنت کو جنت اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں درخت ہی درخت ہیں، جنت کے معنی ہوتے ہی باغات ہیں تو پھر خالی پڑی ہوئی ہے کا کیا مطلب؟ مطلب یہ ہے کہ اس کے درخت بندوں کے اعمال ہی کا ثمرہ ہیں، اللہ کو اپنی غیب دانی سے یہ معلوم ہے کہ کون کون بندے اپنے اعمال کے بدلے جنت میں داخل ہوں گے، سو اس نے ان کے اعمال کے بقدر وہاں درخت اگا دیئے ہیں، یا اُگا دے گا، اس لحاظ سے گویا جنت درختوں سے خالی ایک میدان ہے۔
۲؎: یعنی: بندہ جتنی بار کلمات کو کہتا ہے، اتنے ہی درخت پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: حسن، التعليق الرغيب (2 / 245 و 256) ، الكلم الطيب (15 / 6) ، الصحيحة (106)

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
(3462) إسناده ضعيف ¤ عبدالرحمن بن إسحاق : ضعيف (تقدم: 741) وفي المسند (418/5) بإسناد حسن عن إبراهيم عليه السلام قال لرسول صلى الله عليه وسلم: مر أمتك فليكثرو ا من غراس الجنة فإن تربتها طيبة و أرضها واسعة ، قيل : وما غراس الجنة؟ قال إبراهيم: لا حول ولا قوة إلا بالله

Share this: