احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

16: بَابُ: الْحُكْمِ فِيمَنْ سَبَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم
باب: نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے اور برا بھلا کہنے والے کے حکم کا بیان۔
سنن نسائي حدیث نمبر: 4075
اخبرنا عثمان بن عبد الله، قال: حدثنا عباد بن موسى، قال: حدثنا إسماعيل بن جعفر، قال: حدثني إسرائيل، عن عثمان الشحام، قال: كنت اقود رجلا اعمى، فانتهيت إلى عكرمة، فانشا يحدثنا، قال: حدثني ابن عباس: ان اعمى كان على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وكانت له ام ولد، وكان له منها ابنان، وكانت تكثر الوقيعة برسول الله صلى الله عليه وسلم , وتسبه فيزجرها، فلا تنزجر، وينهاها فلا تنتهي، فلما كان ذات ليلة ذكرت النبي صلى الله عليه وسلم , فوقعت فيه فلم اصبر، ان قمت إلى المغول فوضعته في بطنها، فاتكات عليه فقتلتها , فاصبحت قتيلا , فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فجمع الناس، وقال:"انشد الله رجلا لي عليه حق , فعل ما فعل إلا قام"، فاقبل الاعمى يتدلدل، فقال: يا رسول الله، انا صاحبها , كانت ام ولدي، وكانت بي لطيفة رفيقة , ولي منها ابنان مثل اللؤلؤتين , ولكنها كانت تكثر الوقيعة فيك وتشتمك، فانهاها فلا تنتهي وازجرها فلا تنزجر , فلما كانت البارحة ذكرتك , فوقعت فيك , فقمت إلى المغول فوضعته في بطنها , فاتكات عليها حتى قتلتها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"الا اشهدوا، ان دمها هدر".
عثمان شحام کہتے ہیں کہ میں ایک اندھے آدمی کو لے کر عکرمہ کے پاس گیا تو وہ ہم سے بیان کرنے لگے کہ مجھ سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک نابینا آدمی تھا، اس کی ایک ام ولد (لونڈی) تھی، اس سے اس کے دو بیٹے تھے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت برا بھلا کہتی تھی، وہ اسے ڈانٹتا تھا مگر وہ مانتی نہیں تھی، وہ اسے روکتا تھا مگر وہ باز نہ آتی تھی (نابینا کا بیان ہے) ایک رات کی بات ہے میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا تو اس نے آپ کو برا بھلا کہا، مجھ سے رہا نہ گیا، میں نے خنجر لیا اور اس کے پیٹ پر رکھ کر اسے زور سے دبایا اور اسے مار ڈالا، وہ مر گئی، اس کا تذکرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو آپ نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا: میں قسم دیتا ہوں اس کو جس پر میرا حق ہے! جس نے یہ کیا ہے وہ اٹھ کھڑا ہو، تو وہ نابینا گرتا پڑتا آیا اور بولا: اللہ کے رسول! یہ میرا کام ہے، وہ میری ام ولد (لونڈی) تھی، وہ مجھ پر مہربان اور رفیق تھی، میرے اس سے موتیوں جیسے دو بیٹے ہیں، لیکن وہ آپ کو اکثر برا بھلا کہتی تھی اور آپ کو گالیاں دیتی تھی، میں اسے روکتا تھا تو وہ باز نہیں آتی تھی، میں اسے ڈانٹتا تھا تو وہ اثر نہ لیتی تھی، کل رات کی بات ہے میں نے آپ کا تذکرہ کیا تو اس نے آپ کو برا بھلا کہا، میں نے خنجر لیا اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر زور سے دبایا یہاں تک کہ وہ مر گئی، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو! تم لوگ گواہ رہو اس کا خون رائیگاں ہے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الحدود 2 (4361)، (تحفة الأشراف: 6155) (صحیح الإسناد)

وضاحت: ۱؎: یعنی: اس کے خون کا قصاص یا خون بہا (دیت) نہیں ہے، معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینا، آپ پر طعن و تشنیع کرنا اور اس سے باز نہ آنے کی واجبی سزا قتل ہے اور آپ کو گالیاں دینے اور سب و شتم کرنے والا خواہ ذمی ہی کیوں نہ ہو قتل کیا جائے گا، اور یہ واضح رہے کہ یہ عمل صرف اسلامی حکومت اپنی حکومت ہی میں نافذ کر سکتی ہے کیونکہ اس کا تعلق حدود سے ہے جس کے لیے اسلامی حکومت اور حکمرانی کا ہونا ضروری ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

Share this: