احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

41: بَابُ: إِيذَانِ الْمُؤَذِّنِينَ الأَئِمَّةَ بِالصَّلاَةِ
باب: مؤذن کا امام کو نماز کی خبر دینے کا بیان۔
سنن نسائي حدیث نمبر: 686
اخبرنا احمد بن عمرو بن السرح، قال: انبانا ابن وهب، قال: اخبرني ابن ابي ذئب، ويونس، وعمرو بن الحارث، ان ابن شهاب اخبرهم، عن عروة، عن عائشة، قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم"يصلي فيما بين ان يفرغ من صلاة العشاء إلى الفجر إحدى عشرة ركعة، يسلم بين كل ركعتين ويوتر بواحدة ويسجد سجدة قدر ما يقرا احدكم خمسين آية، ثم يرفع راسه، فإذا سكت المؤذن من صلاة الفجر وتبين له الفجر، ركع ركعتين خفيفتين ثم اضطجع على شقه الايمن حتى ياتيه المؤذن بالإقامة، فيخرج معه". وبعضهم يزيد على بعض في الحديث.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے فارغ ہونے سے لے کر فجر تک گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے، ہر دو رکعت کے درمیان سلام پھیرتے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے ۱؎ اور ایک اتنا لمبا سجدہ کرتے کہ اتنی دیر میں تم میں کا کوئی پچاس آیتیں پڑھ لے، پھر اپنا سر اٹھاتے، اور جب مؤذن فجر کی اذان دے کر خاموش ہو جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فجر عیاں اور ظاہر ہو جاتی تو ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے، پھر اپنے داہنے پہلو پر لیٹ جاتے یہاں تک کہ مؤذن آ کر آپ کو خبر کر دیتا کہ اب اقامت ہونے والی ہے، تو آپ اس کے ساتھ نکلتے۔ بعض راوی ایک دوسرے پر اس حدیث میں اضافہ کرتے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المسافرین 17 (736)، سنن ابی داود/الصلاة 316 (1337)، (تحفة الأشراف: 16573)، مسند احمد 6/34، 74، 83، 85، 88، 143، 215، 248، ویأتي عند المؤلف في السھو 74 (برقم: 1329) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اس سے صراحت کے ساتھ ایک رکعت کے وتر کا جواز ثابت ہوتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: