احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

26: بَابُ: الْقَوَدِ بِغَيْرِ حَدِيدَةٍ
باب: تلوار کے بجائے کسی اور چیز سے قصاص لینے کا بیان۔
سنن نسائي حدیث نمبر: 4783
اخبرنا إسماعيل بن مسعود، قال: حدثنا خالد , عن شعبة، عن هشام بن زيد، عن انس: ان يهوديا راى على جارية اوضاحا , فقتلها بحجر، فاتي بها النبي صلى الله عليه وسلم وبها رمق، فقال:"اقتلك فلان ؟", فاشار شعبة براسه يحكيها: ان لا، فقال:"اقتلك فلان ؟", فاشار شعبة براسه يحكيها: ان لا، قال:"اقتلك فلان ؟", فاشار شعبة براسه يحكيها: ان نعم، فدعا به رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقتله بين حجرين.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کو زیور پہنے دیکھا تو اسے پتھر سے مار ڈالا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی، اس میں کچھ جان باقی تھی، آپ نے فرمایا: کیا تمہیں فلاں نے قتل کیا ہے؟ (شعبہ نے اپنے سر سے اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ) اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: کیا تمہیں فلاں نے قتل کیا ہے؟ (شعبہ نے اپنے سر سے اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ) اس نے کہا: نہیں، پھر آپ نے فرمایا: کیا تمہیں فلاں نے قتل کیا ہے؟ (پھر شعبہ نے سر کے اشارے سے کہا کہ) اس نے کہا: ہاں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور دو پتھروں کے درمیان کچل کر اسے مار ڈالا ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق 24 (5295 تعلیقًا)، الدیات 4 (6877)، 5 (6879)، صحیح مسلم/الحدود 3 (1672)، سنن ابی داود/الدیات 10 (4529)، سنن ابن ماجہ/الدیات 24 (2666)، (تحفة الأشراف: 1631)، مسند احمد (3/171، 203) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی سے تلوار کی بجائے پتھروں سے اس کا سر کچل کر قصاص لیا، اس سے ثابت ہوا کہ قصاص صرف تلوار ہی سے ضروری نہیں ہے (جیسا کہ حنفیہ کا قول ہے) بلکہ یہ تو ارشاد ربانی کے مطابق ہے «وإن عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم به» (سورة النحل: 126) «فاعتدوا عليه بمثل ما اعتدى عليكم» (سورة البقرة: 194) حنفیہ حدیث «لا قود إلا بالسیف» یعنی: قصاص صرف تلوار ہی سے ہے سے استدلال کرتے ہیں، حالانکہ یہ حدیث ہر طریقے سے ضعیف ہے، بلکہ بقول امام ابوحاتم منکر ہے (کذا فی نیل الا ٔوطار والإرواء رقم ۲۲۲۹)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: