احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

10: بَابُ: طَلاَقِ الْبَتَّةِ
باب: قطعی طلاق کا بیان۔
سنن نسائي حدیث نمبر: 3438
اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يزيد بن زريع، قال: حدثنا معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت:"جاءت امراة رفاعة القرظي إلى النبي صلى الله عليه وسلم، وابو بكر عنده، فقالت: يا رسول الله، إني كنت تحت رفاعة القرظي، فطلقني البتة، فتزوجت عبد الرحمن بن الزبير، وإنه والله يا رسول الله ما معه إلا مثل هذه الهدبة، واخذت هدبة من جلبابها، وخالد بن سعيد بالباب , فلم ياذن له، فقال: يا ابا بكر، الا تسمع هذه تجهر بما تجهر به عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:"تريدين ان ترجعي إلى رفاعة، لا، حتى تذوقي عسيلته، ويذوق عسيلتك".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ قرظی کی بیوی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، وہاں ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں رفاعہ قرظی کی بیوی تھی اس نے مجھے طلاق بتہ دے دی ہے تو میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی، اور اللہ کے رسول! قسم اللہ کی ان کے پاس تو اس جھالر جیسی چیز کے سوا کچھ نہیں ہے ۱؎ انہوں نے اپنی چادر کا پلو پکڑ کر یہ بات کہی۔ اس وقت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ دروازے پر کھڑے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اندر آنے کی اجازت نہ دی، انہوں نے (ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے) کہا: ابوبکر! آپ سن رہے ہیں نا جو یہ زور زور سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ رہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اس عورت سے) کہا: تم رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو، یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ تم اس کے شہد کا مزہ نہ چکھ لو اور وہ تمہارے شہد کا مزہ نہ چکھ لے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأدب 68 (6084)، صحیح مسلم/النکاح 17 (1433)، (تحفة الأشراف: 16631)، مسند احمد (6/34، 226) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی وہ تو عورت کے قابل ہی نہیں ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: