احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

102: بَابُ: النَّهْىِ عَنْ الاِسْتِغْفَارِ لِلْمُشْرِكِينَ
باب: کفار و مشرکین کے لیے مغفرت طلب کرنا منع ہے۔
سنن نسائي حدیث نمبر: 2037
اخبرنا محمد بن عبد الاعلى، قال: حدثنا محمد وهو ابن ثور، عن معمر، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن ابيه، قال: لما حضرت ابا طالب الوفاة، دخل عليه النبي صلى الله عليه وسلم وعنده ابو جهل وعبد الله بن ابي امية , فقال:"اي عم , قل لا إله إلا الله، كلمة احاج لك بها عند الله عز وجل", فقال له ابو جهل، وعبد الله بن ابي امية: يا ابا طالب , اترغب عن ملة عبد المطلب، فلم يزالا يكلمانه حتى كان آخر شيء كلمهم به على ملة عبد المطلب، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:"لاستغفرن لك ما لم انه عنك فنزلت ما كان للنبي والذين آمنوا ان يستغفروا للمشركين سورة التوبة آية 113 ونزلت إنك لا تهدي من احببت سورة القصص آية 56.
مسیب بن حزن رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت آیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے، اور ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ دونوں ان کے پاس (پہلے سے موجود) تھے، تو آپ نے فرمایا: چچا جان! آپ «لا إله إلا اللہ» کا کلمہ کہہ دیجئیے، میں اس کے ذریعہ آپ کے لیے اللہ عزوجل کے پاس جھگڑوں گا، تو ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ دونوں نے ان سے کہا: ابوطالب! کیا آپ عبدالمطلب کے دین سے منہ موڑ لو گے؟ پھر وہ دونوں ان سے باتیں کرتے رہے یہاں تک کہ آخری بات جو عبدالمطلب نے ان سے کی وہ یہ تھی کہ (میں) عبدالمطلب کے دین پر ہوں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: میں آپ کے لیے مغفرت طلب کرتا رہوں گا جب تک مجھے روک نہ دیا جائے، تو یہ آیت اتری ۱؎: «‏ما كان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشركين» نبی اور اہل ایمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت طلب کریں (التوبہ: ۱۱۳) نیز یہ آیت اتری: «إنك لا تهدي من أحببت» آپ جسے چاہیں ہدایت کے راستہ پر نہیں لا سکتے (القص: ۵۶)۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز 80 (1360)، ومناقب الأنصار 40 (3884)، وتفسیر التوبة 16 (4675)، والقصص 1 (4772)، والأیمان والنذور 19 (6681)، صحیح مسلم/الإیمان 9 (24)، (تحفة الأشراف: 11281)، مسند احمد 5/433 (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یہاں ایک مشکل یہ ہے کہ ابوطالب کی موت ہجرت سے پہلے ہوئی ہے، اور سورۃ برأت جس کی یہ آیت ہے ان سورتوں میں سے جو مدنی دور کے اخیر میں نازل ہوئی ہیں، اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ یہاں یہ مراد نہیں کہ آیت کا نزول آپ کے «لأستغفرن لك ما لم أنه عنك» کہنے کے بعد فوراً ہوا، بلکہ مراد یہ ہے کہ یہ نزول کا سبب ہے «فنزلت» میں «فاء» سبب بیان کرنے کے لیے ہے نہیں کہ بلکہ «تعقیب» یعنی بعد میں واقع ہونے کی خبر کے لیے ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: