احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

66: بَابُ: الرُّخْصَةِ لِلْحَادَّةِ أَنْ تَمْتَشِطَ بِالسِّدْرِ
باب: سوگ منانے والی عورت بیری کے پتے سے سر دھو کر کنگھی کر سکتی ہے۔
سنن نسائي حدیث نمبر: 3567
اخبرنا احمد بن عمرو بن السرح، قال: حدثنا ابن وهب، قال: اخبرني مخرمة، عن ابيه، قال: سمعت المغيرة بن الضحاك، يقول: حدثتني ام حكيم بنت اسيد، عن امها، ان زوجها توفي وكانت تشتكي عينها، فتكتحل الجلاء، فارسلت مولاة لها إلى ام سلمة فسالتها عن كحل الجلاء، فقالت: لا تكتحل إلا من امر لا بد منه، دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم حين توفي ابو سلمة، وقد جعلت على عيني صبرا، فقال:"ما هذا يا ام سلمة ؟"قلت: إنما هو صبر يا رسول الله، ليس فيه طيب، قال:"إنه يشب الوجه، فلا تجعليه إلا بالليل، ولا تمتشطي بالطيب ولا بالحناء، فإنه خضاب"، قلت: باي شيء امتشط يا رسول الله ؟ قال:"بالسدر تغلفين به راسك".
ام حکیم بنت اسید اپنی ماں سے روایت کرتی ہیں کہ ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا اور اس وقت ان کی آنکھوں میں تکلیف تھی، چنانچہ وہ آنکھوں کو جلا پہنچانے والا (یعنی اثمد کا) سرمہ لگایا کرتی تھیں تو انہوں نے (سوگ میں ہونے کے بعد) اپنی ایک لونڈی کو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیج کر آنکھوں کو جلا اور ٹھنڈک پہنچانے والے سرمہ کے لگانے کے بارے میں پوچھا؟ انہوں نے کہا: نہیں لگا سکتی مگر یہ کہ کوئی ایسی مجبوری اور ضرورت پیش آ جائے جس کو لگائے بغیر چارہ نہیں (تو لگا سکتی ہے)۔ جب (میرے شوہر) ابوسلمہ کا انتقال ہوا اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، اس موقع پر میں اپنی آنکھ پر ایلوا لگائے ہوئے تھی۔ آپ نے پوچھا: ام سلمہ! یہ کیا چیز ہے؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ صرف ایلوا ہے! اس میں کسی طرح کی خوشبو نہیں ہے، آپ نے فرمایا: (خوشبو تو نہیں ہے لیکن) یہ چہرے کو جوان (اور تروتازہ کر دیتا) ہے۔ اسے نہ لگاؤ اور اگر لگانا ہی (بہت ضروری) ہو تو رات میں لگاؤ اور خوشبودار چیز اور مہندی لگا کر کنگھی نہ کیا کرو۔ کیونکہ یہ خضاب ہے۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں کیا چیز لگا کر سر دھوؤں اور کنگھی کروں! آپ نے فرمایا: بیری کے پتے کا لیپ لگا کر اپنے سر کو ڈھانپ رکھو (اور دھو کر کنگھی کرو)۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق 46 (2305)، (تحفة الأشراف: 1830) (ضعیف) (اس کے راوی ’’ مغیرہ ‘‘ لین الحدیث ہیں، اور ’’ ام حکیم ‘‘ اور ان کی ماں دونوں مجہول ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف / (د 2305)

Share this: