احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

83: بَابُ: ذِكْرِ النَّهْىِ عَنْ لُبْسِ السِّيَرَاءِ
باب: سیراء چادر پہننے کی ممانعت کا بیان۔
سنن نسائي حدیث نمبر: 5297
اخبرنا إسحاق بن منصور، قال: انبانا عبد الله بن نمير، قال: حدثنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، عن عمر بن الخطاب , انه راى حلة سيراء تباع عند باب المسجد , فقلت: يا رسول الله , لو اشتريت هذا ليوم الجمعة وللوفد إذا قدموا عليك ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إنما يلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة"، قال فاتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد منها بحلل فكساني منها حلة، فقال: يا رسول الله , كسوتنيها وقد قلت فيها ما قلت، قال النبي صلى الله عليه وسلم:"لم اكسكها لتلبسها، إنما كسوتكها لتكسوها , او لتبيعها"، فكساها عمر اخا له من امه مشركا.
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مسجد کے دروازے کے پاس میں نے ایک ریشمی دھاری والا جوڑا بکتے دیکھا، تو عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ اسے جمعہ کے دن کے لیے اور اس وقت کے لیے جب آپ کے پاس وفود آئیں خرید لیتے (تو اچھا ہوتا) ۱؎، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ سب وہ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ پھر اس میں کے کئی جوڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو ان میں سے آپ نے ایک جوڑا مجھے دے دیا، میں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ جوڑا آپ نے مجھے دے دیا، حالانکہ اس سے پہلے آپ نے اس کے بارے میں کیا کیا فرمایا تھا؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں یہ پہننے کے لیے نہیں دیا ہے، بلکہ کسی (اور) کو پہنانے یا بیچنے کے لیے دیا ہے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے ایک ماں جائے بھائی کو دے دیا جو مشرک تھا۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/اللباس 2 (2068)، (تحفة الٔاشراف: 10551) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کی اس بات پر کوئی نکیر نہیں کی، اس سے ثابت ہوا کہ ان مواقع کے لیے اچھا لباس اختیار کرنے کی بات پر آپ نے صاد کیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: