احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

3: بَابُ: خَفْضِ الصَّوْتِ فِي التَّرْجِيعِ فِي الأَذَانِ
باب: اذان میں ترجیع، دھیمی آواز سے کرنے کا بیان۔
سنن نسائي حدیث نمبر: 630
اخبرنا بشر بن معاذ، قال: حدثني إبراهيم وهو بن عبد العزيز بن عبد الملك بن ابي محذورة، قال: حدثني ابي عبد العزيز، وجدي عبد الملك، عن ابي محذورة، ان النبي صلى الله عليه وسلم اقعده فالقى عليه الاذان حرفا حرفا، قال إبراهيم: هو مثل اذاننا هذا، قلت له: اعد علي، قال:"الله اكبر الله اكبر، اشهد ان لا إله إلا الله مرتين، اشهد ان محمدا رسول الله مرتين، ثم قال: بصوت دون ذلك الصوت يسمع من حوله: اشهد ان لا إله إلا الله مرتين، اشهد ان محمدا رسول الله مرتين، حي على الصلاة مرتين، حي على الفلاح مرتين، الله اكبر الله اكبر، لا إله إلا الله".
ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بٹھایا، اور حرفاً حرفاً اذان سکھائی (راوی) ابراہیم کہتے ہیں: وہ ہمارے اس اذان کی طرح تھی، بشر بن معاذ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے (ابراہیم سے) کہا کہ میرے اوپر دہراؤ، تو انہوں نے کہا: «اللہ أكبر اللہ أكبر» ۲؎ «أشهد أن لا إله إلا اللہ» دو مرتبہ، «أشهد أن محمدا رسول اللہ» دو مرتبہ، پھر اس آواز سے دھیمی آواز میں کہا: وہ اپنے اردگرد والوں کو سنا رہے تھے، «أشهد أن لا إله إلا اللہ» دو بار، «أشهد أن محمدا رسول اللہ» دو بار، «حى على الصلاة» دو بار، «حى على الفلاح» دو بار، «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «‏‏‏‏لا إله إلا اللہ» ۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة 28 (500، 501، 503، 505)، سنن الترمذی/الصلاة 26 (191) مختصراً، سنن ابن ماجہ/الأذان 2 (708)، مسند احمد 2/ 408، 409، سنن الدارمی/الصلاة 7 (1232)، (تحفة الأشراف: 12169)، ویأتي عند المؤلف: (633) (منکر) (یہ حدیث ابو محذورہ سے مروی دیگر روایات کے بر خلاف ہے جس میں اس بات کی صراحت ہے کہ اذان کے کلمات (19) ہیں، دیکھیں اگلی روایات)

وضاحت: ۱؎: شہادتیں کے کلمات کو پہلے دو بار آہستہ کہنے، پھر انہیں دو بار بلند آواز سے پکار کر کہنے کو ترجیع کہتے ہیں، جیسا کہ ابوداؤد کی روایت میں اس کی تصریح آئی ہے، لیکن باب کی حدیث سے اس کے برعکس ظاہر ہے، الاّ یہ کہ «دون ذلک» کی تاویل «سوی ذالک» سے کی جائے۔ ۲؎: اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دیگر کلمات کی طرح تکبیر بھی دو ہی بار ہے لیکن آگے روایت آ رہی ہے جس میں اذان کے کلمات ضبط کئے گئے ہیں، اس میں تکبیر چار بار ہے نیز اس روایت میں ترجیع کی تصریح آئی ہے، اور بلال رضی اللہ عنہ کی اذان میں ترجیع کا ذکر نہیں ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں صورتیں جائز ہیں، ترجیع کے ساتھ بھی اذان کہی جا سکتی ہے اور بغیر ترجیع کے بھی۔

قال الشيخ الألباني: منكر مخالف للروايات الأخرى عن أبي محذورة

Share this: