احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

2: بَابُ: الصَّلاَةِ مَعَ أَئِمَّةِ الْجَوْرِ
باب: ظالم حکمرانوں کے پیچھے نماز پڑھنے کا بیان۔
سنن نسائي حدیث نمبر: 779
اخبرنا زياد بن ايوب، قال: حدثنا إسماعيل ابن علية، قال: حدثنا ايوب، عن ابي العالية البراء قال: اخر زياد الصلاة فاتاني ابن صامت فالقيت له كرسيا فجلس عليه فذكرت له صنع زياد فعض على شفتيه وضرب على فخذي وقال: إني سالت ابا ذر كما سالتني فضرب فخذي كما ضربت فخذك وقال: إني سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم كما سالتني فضرب فخذي كما ضربت فخذك فقال عليه الصلاة والسلام"صل الصلاة لوقتها فإن ادركت معهم فصل ولا تقل إني صليت فلا اصلي".
ابوالعالیہ البراء کہتے ہیں کہ زیاد نے نماز میں دیر کر دی تو میرے پاس (عبداللہ ابن صامت) ابن صامت آئے میں نے ان کے لیے ایک کرسی لا کر رکھی، وہ اس پہ بیٹھے، میں نے ان سے زیاد کی کارستانیوں کا ذکر کیا، تو انہوں نے اپنے دونوں ہونٹوں کو بھینچا ۱؎ اور میری ران پر ہاتھ مارا، اور کہا: میں نے بھی ابوذر رضی اللہ عنہ سے اسی طرح پوچھا جس طرح تم نے مجھ سے پوچھا ہے، تو انہوں نے میری ران پہ ہاتھ مارا جس طرح میں نے تیری ران پہ مارا ہے، اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح پوچھا ہے، جس طرح تم نے مجھ سے پوچھا ہے تو آپ نے تمہاری ران پہ ہاتھ مارا جس طرح میں نے تمہاری ران پہ مارا ہے، اور فرمایا: نماز اس کے وقت پر پڑھ لیا کرو، اور اگر تم ان کے ساتھ نماز کا وقت پاؤ تو ان کے ساتھ بھی پڑھ لو، اور یہ نہ کہو کہ میں نے نماز پڑھ لی ہے، لہٰذا اب نہیں پڑھوں گا ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد 41 (648)، وقد أخرجہ: (تحفة الأشراف: 11948)، مسند احمد 5/147، 160، 168، سنن الدارمی/الصلاة 25 (1263)، ویأتی عند المؤلف في الإمامة 55 (برقم: 860) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اس سے اس کے فعل پر ناپسندیدگی کا اظہار مقصود تھا۔ ۲؎: کیونکہ اس سے فتنے کا اندیشہ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: