احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

30: بَابُ: مَا جَاءَ فِي صِيَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نفلی روزوں کا بیان۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 1710
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن ابن ابي لبيد ، عن ابي سلمة ، قال: سالت عائشة عن صوم النبي صلى الله عليه وسلم ؟، فقالت:"كان يصوم حتى نقول قد صام، ويفطر حتى نقول قد افطر، ولم اره صام من شهر قط اكثر من صيامه من شعبان، كان يصوم شعبان كله، كان يصوم شعبان إلا قليلا".
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف زہری کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے سلسلے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے یہاں تک کہ ہم یہ کہتے کہ آپ روزے ہی رکھتے جائیں گے، اور روزے چھوڑ دیتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھیں گے ہی نہیں، اور میں نے آپ کو شعبان سے زیادہ کسی مہینہ میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا، آپ سوائے چند روز کے پورے شعبان روزے رکھتے تھے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصوم 34 (1156)، سنن النسائی/الصوم 19 (2179)، (تحفة الأشراف: 17729)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم 52 (1969)، سنن ابی داود/الصوم 59 (2434)، سنن الترمذی/الصوم 37 (736)، موطا امام مالک/الصیام 22 (56)، مسند احمد (6/39، 80، 84، 89، 107، 128، 143، 153، 165، 179، 233، 242، 249، 268) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: شعبان کے مہینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کثرت سے روزے رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ اس مہینے میں انسان کے اعمال رب العالمین کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں، تو آپ اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ آپ کے اعمال اللہ کے پاس حالت روزے میں پیش ہوں، اور چونکہ آپ کو روحانی قوت حاصل تھی اس لیے یہ روزے آپ کے لیے کمزوری کا سبب نہیں بنتے تھے اس لیے پندرہویں شعبان کے بعد بھی آپ کے لیے روزہ رکھنا جائز تھا، اس کے برخلاف امت کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ شعبان کے نصف ثانی میں روزے نہ رکھے تاکہ رمضان کے روزوں کے لیے قوت و توانائی برقرار ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: