احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

47: بَابُ: مَا يَجِبُ عَلَى الإِمَامِ
باب: امام کی ذمہ داری کیا ہے؟
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 981
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا سعيد بن سليمان ، حدثنا عبد الحميد بن سليمان اخو فليح، حدثنا ابو حازم ، قال: كان سهل بن سعد الساعدي يقدم فتيان قومه يصلون بهم، فقيل له: تفعل ولك من القدم ما لك، قال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:"الإمام ضامن، فإن احسن فله ولهم، وإن اساء، يعني: فعليه، ولا عليهم".
ابوحازم کہتے ہیں کہ سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے جوانوں کو آگے بڑھاتے وہی لوگوں کو نماز پڑھاتے، کسی نے سہل رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ جوانوں کو نماز کے لیے آگے بڑھاتے ہیں، حالانکہ آپ کو سبقت اسلام کا بلند رتبہ حاصل ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: امام (مقتدیوں کی نماز کا) ضامن ہے، اگر وہ اچھی طرح نماز پڑھائے تو اس کے لیے بھی ثواب ہے اور مقتدیوں کے لیے بھی، اور اگر خراب طریقے سے پڑھائے تو اس پر گناہ ہے لوگوں پر نہیں ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4700، ومصباح الزجاجة: 354) (صحیح) (دوسرے شواہد کے بناء پر یہ صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں عبد الحمید ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1767)

وضاحت: ۱؎: امام ضامن ہے کا مطلب یہ کہ اگر وہ اچھی طرح سے نماز پڑھتا ہے، تو اس کا اجر و ثواب اس کو اور مقتدیوں دونوں کو ملے گا، اور اگر خراب طریقے سے نماز پڑھتا ہے، تو اس کا وبال اسی پر ہو گا، نہ کہ مقتدیوں پر۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف ¤ قال البوصيري : ” هذا إسناد ضعيف ۔ عبدالحميد (بن سليمان) اتفقوا على تضعيفه “ وهو : ضعيف (ت 1084) ولبعض الحديث شواهد ۔

Share this: