احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

14: بَابُ: الْوُقُوفِ عِنْدَ الشُّبُهَاتِ
باب: شکوک و شبہات سے دور رہنے کا بیان۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 3984
حدثنا عمرو بن رافع , حدثنا عبد الله بن المبارك , عن زكريا بن ابي زائدة , عن الشعبي , قال: سمعت النعمان بن بشير , يقول على المنبر: واهوى بإصبعيه إلى اذنيه , سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:"الحلال بين , والحرام بين , وبينهما مشتبهات لا يعلمها كثير من الناس , فمن اتقى الشبهات استبرا لدينه وعرضه , ومن وقع في الشبهات وقع في الحرام , كالراعي حول الحمى يوشك ان يرتع فيه , الا وإن لكل ملك حمى , الا وإن حمى الله محارمه , الا وإن في الجسد مضغة , إذا صلحت صلح الجسد كله , وإذا فسدت فسد الجسد كله , الا وهي القلب".
شعبی کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو منبر پر یہ کہتے سنا، اور انہوں نے اپنی دو انگلیوں سے اپنے کانوں کی طرف اشارہ کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: حلال واضح ہے، اور حرام بھی، ان کے درمیان بعض چیزیں مشتبہ ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جان پاتے (کہ حلال ہے یا حرام) جو ان مشتبہ چیزوں سے بچے، اس نے اپنے دین اور اپنی عزت و آبرو کو بچا لیا، اور جو شبہات میں پڑ گیا، وہ ایک دن حرام میں بھی پڑ جائے گا، جیسا کہ چرا گاہ کے قریب جانور چرانے والا اس بات کے قریب ہوتا ہے کہ اس کا جانور اس چراگاہ میں بھی چرنے لگ جائے، خبردار!، ہر بادشاہ کی ایک مخصوص چراگاہ ہوتی ہے، اور اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں، آگاہ رہو! بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، جب تک وہ صحیح رہتا ہے تو پورا جسم صحیح رہتا ہے، اور جب وہ بگڑ جاتا ہے، تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے، آگاہ رہو!، وہ دل ہے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الإیمان 39 (52)، البیوع 2 (2051)، صحیح مسلم/المساقاة 20 (1599)، سنن ابی داود/البیوع 3 (3329، 3330)، سنن الترمذی/البیوع 1 (1205)، سنن النسائی/البیوع 2 (4458)، (تحفة الأشراف: 11624)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/275)، سنن الدارمی/البیوع 1 (2573) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یہ بڑی اہم بات ہے جس پر اسلام کے اکثر احکام کا دارومدار ہے، مشتبہ کاموں سے ہمیشہ بچے رہنا ہی تقویٰ اور صلاح کا طریقہ ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کا بیان کھول کر نہیں کیا تو سود سے بچو اور جس چیز میں سود کا شک ہو اس سے بچو اور دوسری حدیث میں ہے کہ جس کام میں تم کو شک ہو اس کو چھوڑ دو تاکہ تم شک میں نہ پڑو، اور آپ نے سودہ رضی اللہ عنہا کو عبد بن زمعہ سے پردہ کا حکم دیا حالانکہ اس کا نسب زمعہ سے ثابت کیا کیونکہ اس میں عتبہ کے نطفہ ہونے کا شبہ تھا اور عقبہ بن حارث نے ایک عورت سے نکاح کیا پھر ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے دولہا اور دلہن دونوں کو دودھ پلایا ہے حالانکہ وہ دونوں اس کو نہیں جانتے تھے نہ ان کے گھر والے پھر اس کا ذکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا کیا علاج ہے کہ ایسا کہا گیا یعنی گو کامل شہادت سے دودھ پلانا ثابت نہیں ہوا مگر کہا تو گیا تو شبہ ہوا غرض عقبہ رضی اللہ عنہ کو عورت چھوڑ دینے کا اشارہ کیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: