احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

59: بَابُ: السَّلَفِ فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ
باب: متعین ناپ تول میں ایک مقررہ مدت کے وعدے پر بیع سلف کرنے کا بیان۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 2280
حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن ابن ابي نجيح ، عن عبد الله بن كثير ، عن ابي المنهال ، عن ابن عباس ، قال: قدم النبي صلى الله عليه وسلم وهم يسلفون في التمر السنتين والثلاث، فقال:"من اسلف في تمر، فليسلف في كيل معلوم ووزن معلوم إلى اجل معلوم".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے، اس وقت اہل مدینہ دو سال اور تین سال کی قیمت پہلے ادا کر کے کھجور کی بیع سلف کیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کھجور میں بیع سلف کرے یعنی قیمت پیشگی ادا کر دے تو اسے چاہیئے کہ یہ بیع متعین ناپ تول اور مقررہ میعاد پر کرے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/السلم 1 (2239)، 2 (2240، 2241)، 7 (2253)، صحیح مسلم/المساقاہ 25 (1604)، سنن ابی داود/البیوع 57 (3463)، سنن الترمذی/البیوع 70 (1311)، سنن النسائی/البیوع 61 (4620)، (تحفة الأشراف: 5820)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/217، 222، 282، 358)، سنن الدارمی/البیوع 45 (2625) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: بیع سلف اور سلم دونوں ایک ہیں یعنی ایک آدمی دوسرے آدمی کو روپیہ نقد دے، لیکن مال لینے کے لئے ایک میعاد مقرر کر لے، اہل حدیث کے نزدیک اس میں دو ہی شرطیں ہیں: ایک یہ کہ جس مال کے لینے پر اتفاق ہوا ہے اس کی کیفیت،جنس اور نوع واضح طور پر بیان کر دے، اگر ناپ تول کی چیز ہو تو ناپ تول صراحت سے مقرر کر دی جائے، مثلاً سو من گیہوں سفید اعلیٰ قسم کا، فلاں کپڑا اس قسم کے اتنے گز اور میٹر، دوسرے یہ کہ مال کے لینے کی میعاد مقرر ہو، مثلاً ایک مہینہ، دو مہینہ، ایک سال۔اگر ان شرطوں میں سے کوئی شرط نہ ہو تو بیع سلم فاسد ہوگی، کیونکہ اس میں نزاع کی صورت پیدا ہو گی، بعضوں نے اور شرطیں بھی رکھیں ہیں لیکن ان کی دلیل ذرا مشکل سے ملے گی، اور شاید نہ ملے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: