احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

23: بَابُ: عِدَّةِ الْمُخْتَلِعَةِ
باب: خلع کرانے والی عورت کی عدت کا بیان۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 2058
حدثنا علي بن سلمة النيسابوري ، حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، اخبرني عبادة بن الوليد بن عبادة بن الصامت ، عن الربيع بنت معوذ ابن عفراء ، قال:"قلت لها: حدثيني حديثك، قالت: اختلعت من زوجي، ثم جئت عثمان، فسالت ماذا علي من العدة ؟، فقال: لا عدة عليك، إلا ان يكون حديث عهد بك، فتمكثين عنده حتى تحيضين حيضة، قالت: وإنما تبع في ذلك قضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم في مريم المغالية، وكانت تحت ثابت بن قيس، فاختلعت منه".
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا سے کہا: تم مجھ سے اپنا واقعہ بیان کرو، انہوں نے کہا: میں نے اپنے شوہر سے خلع کرا لیا، پھر میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر پوچھا: مجھ پر کتنی عدت ہے؟ انہوں نے کہا: تم پر کوئی عدت نہیں مگر یہ کہ تمہارے شوہر نے حال ہی میں تم سے صحبت کی ہو، تو تم اس کے پاس رکی رہو یہاں تک کہ تمہیں ایک حیض آ جائے، ربیع رضی اللہ عنہا نے کہا: عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کی پیروی کی، جو آپ نے بنی مغالہ کی خاتون مریم رضی اللہ عنہا کے سلسلے میں کیا تھا، جو ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں اور ان سے خلع کر لیا تھا ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الطلاق 53 (3528)، (تحفة الأشراف: 15836) (حسن صحیح)

وضاحت: ۱؎: نسائی میں ربیع بنت معوذ سے روایت ہے کہ ثابت کی عورت کے قصے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: جو تمہارا اس کے پاس ہے وہ لے لو اور اس کو چھوڑ دو ثابت نے کہا: اچھا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ایک حیض کی عدت گزارنے کا حکم دیا۔ اور یہ کئی طریق سے مروی ہے، ان حدیثوں سے یہ نکلتا ہے کہ خلع کرانے والی کی عدت ایک حیض ہے اور خلع نکاح کا فسخ ہے، اہل حدیث کا یہی مذہب ہے، اگر خلع طلاق ہوتا تو اس کی عدت تین حیض ہوتی، ابوجعفر النحاس نے الناسخ والمنسوخ میں اس پر صحابہ کا اجماع نقل کیا ہے، اور یہی دلائل کی روشنی میں زیادہ صحیح ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

Share this: