احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

2: بَابُ: فَرْضِ الْحَجِّ
باب: حج کی فرضیت کا بیان۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 2884
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، وعلي بن محمد ، قالا: حدثنا منصور بن وردان ، حدثنا علي بن عبد الاعلى ، عن ابيه ، عن ابي البختري ، عن علي ، قال: لما نزلت ولله على الناس حج البيت من استطاع إليه سبيلا سورة آل عمران آية 97، قالوا: يا رسول الله، الحج في كل عام ؟، فسكت، ثم قالوا: افي كل عام ؟، فقال:"لا، ولو قلت: نعم، لوجبت، فنزلت يايها الذين آمنوا لا تسالوا عن اشياء إن تبد لكم تسؤكم سورة المائدة آية 101".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت کریمہ: «ولله على الناس حج البيت من استطاع إليه سبيلا» اللہ کے لیے ان لوگوں پر بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے، جو وہاں تک پہنچنے کی قدرت رکھتے ہوں (سورۃ آل عمران: ۹۷) نازل ہوئی تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا حج ہر سال فرض ہے ۱؎؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، لوگوں نے پھر سوال کیا: کیا ہر سال حج فرض ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، اور اگر میں، ہاں، کہہ دیتا تو (ہر سال) واجب ہو جاتا، اس پر آیت کریمہ: «يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم» اے ایمان والو! تم ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو اگر وہ تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہارے لیے بار خاطر ہوں گی (سورۃ المائدہ: ۱۰۱) نازل ہوئی ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الحج 5 (814)، (تحفة الأشراف: 10111)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/113) (ضعیف) (سند میں عبدالاعلی ضعیف راوی ہیں، لیکن متن حدیث نزول آیت کے علاوہ صحیح و ثابت ہے، ملاحظہ ہو: آگے حدیث نمبر 2885)

وضاحت: ۱؎: حج اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ہے جو ۵ ھ یا ۶ ھ میں فرض ہوا، بعض لوگوں کے نزدیک ۹ ھ یا ۱۰ ھ میں فرض ہوا ہے زادالمعاد میں حافظ ابن القیم کا رجحان اسی طرف ہے۔
۲؎: بلا ضرورت سوال کرنا منع ہے، کیونکہ سوال سے ہر چیز کھول کر بیان کی جاتی ہے اور جو سوال نہ ہو تو مجمل رہتی ہے اور مجمل میں بڑی گنجائش رہتی ہے، اسی حج کی آیت میں دیکھیں کہ اس میں تفصیل نہیں تھی کہ ہر سال حج فرض ہے یا زندگی میں ایک بار، پس اگر زندگی میں ایک بار بھی حج کر لیا تو آیت پر عمل ہو گیا، اور یہ کافی تھا پوچھنے کی حاجت نہ تھی، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے پوچھا، اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہاں فرما دیتے تو ہر سال حج فرض ہو جاتا اور امت کو بڑی تکلیف ہوتی خصوصاً دور دراز ملک والوں کو وہ ہر سال حج کے لیے کیونکر جا سکتے ہیں، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت پر رحم فرمایا، اور خاموش رہے جب انہوں نے پھر سوال کیا تو انکار میں جواب دیا یعنی ہر سال فرض نہیں، اور آئندہ کے لیے ان کو بلاضرورت سوال کرنے سے منع فرمایا۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف / ت 814

Share this: