احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

199: . بَابُ: مَا جَاءَ فِي بَدْءِ شَأْنِ الْمِنْبَرِ
باب: منبر رسول پہلے کیسے بنا؟
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 1414
حدثنا إسماعيل بن عبد الله الرقي ، حدثنا عبيد الله بن عمرو الرقي ، عن عبد الله بن محمد بن عقيل ، عن الطفيل بن ابي بن كعب ، عن ابيه ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم:"يصلي إلى جذع إذ كان المسجد عريشا، وكان يخطب إلى ذلك الجذع"، فقال رجل من اصحابه: هل لك ان نجعل لك شيئا تقوم عليه يوم الجمعة حتى يراك الناس وتسمعهم خطبتك ؟، قال: نعم، فصنع له ثلاث درجات، فهي التي اعلى المنبر، فلما وضع المنبر وضعوه في موضعه الذي هو فيه،"فلما اراد رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يقوم إلى المنبر، مر إلى الجذع الذي كان يخطب إليه، فلما جاوز الجذع خار حتى تصدع وانشق، فنزل رسول الله صلى الله عليه وسلم لما سمع صوت الجذع، فمسحه بيده حتى سكن، ثم رجع إلى المنبر، فكان إذا صلى صلى إليه"، فلما هدم المسجد وغير، اخذ ذلك الجذع ابي بن كعب، وكان عنده في بيته حتى بلي، فاكلته الارضة وعاد رفاتا.
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب مسجد چھپر کی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے ایک تنے کی طرف نماز پڑھتے تھے، اور اسی تنے پر ٹیک لگا کر خطبہ دیتے تھے، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک شخص نے کہا: کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ ہم آپ کے لیے کوئی ایسی چیز بنائیں جس پر آپ جمعہ کے دن کھڑے ہو کر خطبہ دیں تاکہ لوگ آپ کو دیکھ سکیں، اور آپ انہیں اپنا خطبہ سنا سکیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں پھر اس شخص نے تین سیڑھیاں بنائیں، یہی منبر کی اونچائی ہے، جب منبر تیار ہو گیا، تو لوگوں نے اسے اس مقام پہ رکھا جہاں اب ہے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہونے کا ارادہ کیا، تو اس تنے کے پاس سے گزرے جس کے سہارے آپ خطبہ دیا کرتے تھے، جب آپ تنے سے آگے بڑھ گئے تو وہ رونے لگا، یہاں تک کہ پھوٹ پھوٹ کر رویا، اس وقت آپ منبر سے اترے اور اس پر اپنا ہاتھ پھیرا، تب وہ خاموش ہوا، ۱؎ پھر آپ منبر پہ لوٹے، جب آپ نماز پڑھتے تھے تو اسی تنے کی جانب پڑھتے تھے، پھر جب (عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تعمیر نو کے لیے) مسجد ڈھائی گئی، اور اس کی لکڑیاں بدل دی گئیں، تو اس تنے کو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے لے لیا، اور وہ ان کے گھر ہی میں رہا یہاں تک کہ پرانا ہو گیا، پھر اسے دیمک کھا گئی، اور وہ گل کر ریزہ ریزہ ہو گیا۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 34، ومصباح الزجاجة: 499)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/137)، سنن الدارمی/المقدمة 6 (36) (حسن) (کھجور کے تنے کی گریہ وزاری سے متعلق کئی احادیث ہیں، جب کہ بعض اس بارے میں ہیں، نیز تفصیل کے لئے دیکھئے فتح الباری 6؍603)

وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مشہور معجزہ مذکور ہے، یعنی لکڑی کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کے غم میں رونا، نیز اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز میں نفس اور جان ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کچھ بعید نہیں کہ وہ جس کو چاہے قوت گویائی عطا کر دے، اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہو کہ منبر نبوی کی تین سیڑھیاں تھیں۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف ¤ ابن عقيل : ضعيف (تقدم:352) ولأصل الحديث شواهد ۔

Share this: