احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

2: بَابُ: هَلْ لِقَاتِلِ مُؤْمِنٍ تَوْبَةٌ
باب: کیا مومن کے قاتل کی توبہ قبول ہے؟
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 2621
حدثنا محمد بن الصباح ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن عمار الدهني ، عن سالم بن ابي الجعد ، قال: سئل ابن عباس عمن قتل مؤمنا متعمدا ثم تاب وآمن وعمل صالحا ثم اهتدى، قال: ويحه وانى له الهدى، سمعت نبيكم صلى الله عليه وسلم يقول:"يجيء القاتل والمقتول يوم القيامة متعلق براس صاحبه، يقول: رب سل هذا لم قتلني ؟"، والله لقد انزلها الله عز وجل على نبيكم ثم ما نسخها بعد ما انزلها".
سالم بن ابی الجعد کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر دیا، پھر توبہ کر لی، ایمان لے آیا، اور نیک عمل کیا، پھر ہدایت پائی؟ تو آپ نے جواب دیا: افسوس وہ کیسے ہدایت پا سکتا ہے؟ میں نے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے: قیامت کے دن قاتل اور مقتول اس حال میں آئیں گے کہ مقتول قاتل کے سر سے لٹکا ہو گا، اور کہہ رہا ہو گا، اے میرے رب! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ اللہ کی قسم! اس نے تمہارے نبی پر اس (قتل ناحق کی آیت) کو نازل کرنے کے بعد منسوخ نہیں کیا ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/تحریم الدم 2 (4004)، القسامة 48 (4870)، (تحفة الأشراف: 5432)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/240، 364294) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: مراد اس آیت سے ہے: «ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزآؤه جهنم خالدا فيها وغضب الله عليه ولعنه وأعد له عذابا عظيما» (سورة النساء:93) یعنی جس شخص نے کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کر دیا تو اس کا بدلہ جہنم ہے، اس میں وہ ہمیشہ رہے گا ایک دوسری آیت جو بظاہر اس کے معارض ہے: «إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء ومن يشرك بالله فقد افترى إثما عظيما» (سورة النساء:48) یعنی اللہ تعالی اپنے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے والے شخص کو معاف نہیں کرے گا، اور جس کے لئے چاہے اس کے علاوہ گناہ کو معاف کر سکتا ہے، دونوں آیتیں بظاہر متعارض ہیں، علماء نے تطبیق کی صورت یوں نکالی ہے کہ پہلی آیت کو اس صورت پر محمول کریں گے جب قتل کرنے والا مومن کے قتل کو مباح بھی سمجھتا ہو، تو اس کی توبہ قبول نہیں ہو گی، اور وہ جہنمی ہو گا، ایک جواب یہ دیا جاتا ہے کہ آیت میں «خلود» سے مراد زیادہ عرصہ تک ٹھہرنا ہے ایک نہ ایک دن اسے ضرور جہنم سے نجات ملے گی، یہ بھی جواب دیا جا سکتا ہے کہ آیت میں زجرو توبیخ مراد ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: