احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

38: بَابُ: الْوُضُوءِ بِمَاءِ الْبَحْرِ
باب: سمندر کے پانی سے وضو کا بیان۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 386
حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا مالك بن انس ، حدثني صفوان بن سليم ، عن سعيد بن سلمة هو من آل ابن الازرق، ان المغيرة بن ابي بردة وهو من بني عبد الدار، حدثه انه سمع ابا هريرة ، يقول:"جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إنا نركب البحر، ونحمل معنا القليل من الماء، فإن توضانا به عطشنا، افنتوضا من ماء البحر ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"هو الطهور ماؤه الحل ميتته".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سمندری سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا سا پانی رکھتے ہیں، اگر ہم اس پانی سے وضو کریں تو پیاسے رہ جائیں، کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کر لیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا پانی بذات خود پاک ہے، اور دوسرے کو پاک کرنے والا ہے، اس کا مردار حلال ہے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطہارة 41 (83)، سنن الترمذی/الطہارة 52 (69)، سنن النسائی/الطہارة 47 (59)، (تحفة الأشراف: 14618)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة 3 (12)، مسند احمد (2/237، 36، 378)، سنن الدارمی/الطہارة 53 (755) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: سمندر کا مردار حلال ہے: اس سے مراد حلال جانور ہیں جو کسی صدمہ سے مر گئے اور سمندر نے ان کو ساحل پر ڈال دیا، اسی کو آیت  «أحل لكم صيد البحر وطعامه» (سورة المائدة: 96) میں «طَعام» سے تعبیر کیا گیا ہے، یاد رہے سمندری جانور وہ ہے جو خشکی پر زندہ نہ رہ سکے جیسے مچھلی، تو مچھلی تمام اقسام کی حلال ہیں، رہے دیگر جانور اگر مضر اور خبیث ہیں یا ان کے بارے میں نص شرعی وارد ہے تو حرام ہیں، اگر کسی جانور کا نص شرعی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا کھانا مروی ہے، اور وہ ان کے زمانے میں موجود تھا، تو اس کے بارے میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: