احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

9: بَابُ: قَوْلِهِ {وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ}
باب: آیت کریمہ: «ومن كان فقيرا فليأكل بالمعروف» ”اور جو محتاج ہو وہ عرف کے مطابق یتیم کے مال سے کھائے“ کی تفسیر۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 2718
حدثنا احمد بن الازهر ، حدثنا روح بن عبادة ، حدثنا حسين المعلم ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: لا اجد شيئا وليس لي مال ولي يتيم له مال، قال:"كل من مال يتيمك غير مسرف ولا متاثل مالا قال: واحسبه قال ولا تقي مالك بماله".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا، اور اس نے عرض کیا: میرے پاس کچھ بھی نہیں اور نہ مال ہی ہے، البتہ میری پرورش میں ایک یتیم ہے جس کے پاس مال ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یتیم کے مال میں سے فضول خرچی کئے اور بغیر اپنے لیے پونجی بنائے کھاؤ میرا خیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا مال بچانے کے لیے اس کا مال اپنے مصرف میں نہ خرچ کرو۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الوصایا 8 (2872)، سنن النسائی/الوصایا 10 (3698)، (تحفة الأ شراف: 8681)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/186، 216) (حسن صحیح)

وضاحت: مثلاً کسی نے آپ سے قرض مانگا تو یتیم کا مال دے دیا، اور اپنے مال کو رکھ چھوڑا یہ جائز نہیں، مقصد یہ ہے کہ یتیم کے مال میں اس شخص کو اس قدر تصرف کی اجازت ہے جو یتیم کی پرورش کرتا ہو اور بالکل محتاج ہو کہ ضرورت کے مطابق اس میں سے کھا لے، لیکن مال برباد کرنا اور اسراف کرنا یا ضرورت سے زیادہ خرچ کر دینا یہ کسی طرح صحیح نہیں ہے، ہر حال میں بہتر یہی ہے کہ اگر محتاج بھی ہو تو محنت کر کے اس میں سے کھائے، اور یتیم کے مال کو محفوظ رکھے، صرف یتیم پر ضرورت کے مطابق خرچ کرے، قرآن شریف میں ہے کہ جو یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

Share this: