احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

75: بَابُ: مِقْدَارِ الْمَاءِ الَّذِي لاَ يَنْجَسُ
باب: پانی کی وہ مقدار جس میں نجاست پڑنے سے پانی نجس نہیں ہوتا۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 517
حدثنا ابو بكر بن خلاد الباهلي ، حدثنا يزيد بن هارون ، انبانا محمد بن إسحاق ، عن محمد بن جعفر بن الزبير ، عن عبيد الله بن عبد الله بن عمر ، عن ابيه ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم"سئل عن الماء يكون بالفلاة من الارض، وما ينوبه من الدواب، والسباع ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إذا بلغ الماء قلتين لم ينجسه شيء".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحراء اور میدان میں واقع ان گڈھوں کے پانی کے بارے میں پوچھا گیا جن سے مویشی اور درندے پانی پیتے رہتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب پانی دو قلہ (دو بڑے مٹکے کے برابر) ہو تو اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطہارة 33 (64)، سنن الترمذی/الطہارة 50 (67)، (تحفة الأشراف: 7305)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الطہارة 44 (52)، سنن الدارمی/الطہارة 54 (758) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اگر پانی دو قلہ سے زیادہ ہو گا تو بدرجہ اولی ناپاک نہ ہو گا، اور اگر اس کا رنگ، بو، یا مزہ یا ان میں سے کوئی کسی ناپاک چیز کے پڑنے سے بدل جائے، تو ناپاک ہو جائے گا، دو قلہ کا اندازہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے حجۃ اللہ البالغہ میں یہ بیان کیا ہے کہ کسی ایسے حوض میں کہ جس کی زمین برابر ہوا گر پانی جمع کریں تو تقریباً سات بالشت لمبا اور پانچ بالشت چوڑا ہو گا، اور یہ ادنیٰ درجہ ہے حوض کا اور اعلیٰ درجہ ہے برتنوں کا، عرب میں اس سے بڑا برتن نہیں ہوتا تھا۔ قلہ: کے معنی مٹکے کے ہیں یہاں مراد ہجر کے مٹکے ہیں کیونکہ عرب میں یہی مٹکے مشہور تھے، اس میں ڈھائی سو رطل پانی سمانے کی گنجائش ہوتی تھی، اس اعتبار سے دو قلوں کے پانی کی مقدار پانچ سو رطل ہوئی، جو موجودہ زمانے کے پیمانے کے مطابق دو سو ستائیس کلوگرام (۲۲۷) بنتی ہے۔

سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 517M
حدثنا عمرو بن رافع ، حدثنا عبد الله بن المبارك ، عن محمد بن إسحاق ، عن محمد بن جعفر ، عن عبيد الله بن عبد الله بن عمر ، عن ابيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، نحوه.
اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

Share this: