احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

132: . بَابُ: مَا جَاءَ فِيمَنْ شَكَّ فِي صَلاَتِهِ فَرَجَعَ إِلَى الْيَقِينِ
باب: نماز میں شک کی صورت میں یقینی بات پر عمل کرنے کا بیان۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 1209
حدثنا ابو يوسف الرقي محمد بن احمد الصيدلاني ، حدثنا محمد بن سلمة ، عن محمد بن إسحاق ، عن مكحول ، عن كريب ، عن ابن عباس ، عن عبد الرحمن بن عوف ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:"إذا شك احدكم في الثنتين والواحدة فليجعلها واحدة، وإذا شك في الثنتين والثلاث فليجعلها ثنتين، وإذا شك في الثلاث والاربع فليجعلها ثلاثا، ثم ليتم ما بقي من صلاته حتى يكون الوهم في الزيادة، ثم يسجد سجدتين وهو جالس قبل ان يسلم".
عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جب کوئی شخص شک کرے کہ دو رکعت پڑھی ہے یا ایک، تو ایک کو اختیار کرے، (کیونکہ وہ یقینی ہے) اور جب دو اور تین رکعت میں شک کرے تو دو کو اختیار کرے، اور جب تین یا چار میں شک کرے تو تین کو اختیار کرے، پھر باقی نماز پوری کرے، تاکہ وہم زیادتی میں ہو کمی میں نہ ہو، پھر سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة 175 (398)، (تحفة الأشراف: 9722)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/190، 193، 195) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب اس کی رائے کسی طرف قرار نہ پکڑے، اور دونوں جانب برابر ہوں یعنی غلبہ ظن کسی طرف نہ ہو تو کم عدد اختیار کرے کیونکہ اس میں احتیاط ہے، اگر غلطی ہو گی تو یہی ہو گی کہ نماز زیادہ ہو جائے گی، اور وہ بہتر ہے کم ہو جانے سے، اور اس حالت میں یہ حدیث اگلی حدیثوں کے خلاف نہ ہو گی، جن میں سوچنے کا ذکر ہے، اور بعضوں نے کہا سوچنا چاہئے، بلکہ ہر حال میں یقین کی طرف رجوع کرنا چاہئے، اور کم عدد اختیار کرنا چاہئے، اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر پہلی مرتبہ ایسا اتفاق ہو تو نماز سرے سے دوبارہ پڑھے، اگر دوسری یا تیسری بار ہو تو سوچے اور جس رائے پر اطمینان ہو اس پر عمل کرے، اگر کسی پر رائے اطمینان نہ ہو تو کم کو اختیار کرے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: