احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

58: بَابُ: الرَّجُلِ يَشُكُّ فِي وَلَدِهِ
باب: آدمی کا اپنے لڑکے میں شک کرنے کا بیان۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 2002
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، ومحمد بن الصباح ، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة ، عن الزهري ، عن سعيد بن المسيب ، عن ابي هريرة ، قال: جاء رجل من بني فزارة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إن امراتي ولدت غلاما اسود، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"هل لك من إبل ؟"، قال: نعم، قال:"فما الوانها ؟"، قال: حمر، قال:"هل فيها من اورق"، قال: إن فيها لورقا، قال:"فانى اتاها ذلك"، قال: عسى عرق نزعها، قال: وهذا لعل عرقا نزعه، واللفظ لابن الصباح.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی فزارہ کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! میری بیوی نے ایک کالا کلوٹا بچہ جنا ہے! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے رنگ کیا ہیں؟ اس نے کہا: سرخ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ان میں کوئی خاکی رنگ کا بھی ہے؟ اس نے کہا: ہاں، ان میں خاکی رنگ کے بھی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان میں خاکی رنگ کہاں سے آیا؟ اس نے کہا: کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہو گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہاں بھی (تیرے لڑکے میں) کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہو گا ۱؎۔ یہ الفاظ محمد بن صباح کے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/اللعان 1 (1500)، سنن ابی داود/الطلاق 28 (2260)، سنن الترمذی/الولاء 4 (2129)، سنن النسائی/الطلاق 46 (3508)، (تحفة الأشراف: 13129)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الطلاق 26 (5305)، الحدود 41 (6847)، الاعتصام 12 (7314)، مسند احمد (2/234، 239، 409) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ اونٹوں کی قدیم نسل میں کوئی دوسرے رنگ کا ہو گا، پھر یہی رنگ کئی پشت کے بعد ان کی نئی نسل میں ظاہر ہوا، اب موجودہ اونٹ جو پرانی نسل کے ہیں وہ خالص سرخ تھے، چت کبرے نہ تھے، پس اسی طرح ہو سکتا ہے کہ انسان کی اولاد میں بھی ماں باپ کے خلاف دوسرا رنگ ظاہر ہو، اور اس کی وجہ یہ ہو کہ ماں باپ کے دادا پردادا میں کوئی کالا بھی ہو اور وہ رنگ اب ظاہر ہوا ہو، حاصل یہ ہے کہ بچے کے گورے یا کالے رنگ یا نقشے کے اختلاف کی وجہ سے یہ شبہ نہ کرنا چاہئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: