احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

109: . بَابُ: مَا جَاءَ فِيمَا يُسْتَحَبُّ مِنَ التَّطَوُّعِ بِالنَّهَارِ
باب: دن کی مستحب (نفل) نماز کا بیان۔
سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 1161
حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن عاصم بن ضمرة السلولي ، قال: سالنا عليا عن تطوع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالنهار، فقال: إنكم لا تطيقونه، فقلنا: اخبرنا به ناخذ منه ما استطعنا، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم"إذا صلى الفجر يمهل حتى إذا كانت الشمس من ها هنا، يعني: من قبل المشرق بمقدارها من صلاة العصر من ها هنا، يعني: من قبل المغرب، قام فصلى ركعتين، ثم يمهل حتى إذا كانت الشمس من ها هنا، يعني: من قبل المشرق مقدارها من صلاة الظهر من ها هنا، قام فصلى اربعا، واربعا قبل الظهر إذا زالت الشمس، وركعتين بعدها، واربعا قبل العصر، يفصل بين كل ركعتين بالتسليم على الملائكة المقربين، والنبيين، ومن تبعهم من المسلمين، والمؤمنين"، قال علي: فتلك ست عشرة ركعة تطوع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالنهار، وقل من يداوم عليها، قال وكيع: زاد فيه ابي، فقال حبيب بن ابي ثابت: يا ابا إسحاق، ما احب ان لي بحديثك هذا ملء مسجدك هذا ذهبا".
عاصم بن ضمرہ سلولی کہتے ہیں کہ ہم نے علی رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دن کی نفل نماز کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: تم ان کو ادا نہ کر سکو گے، ہم نے کہا کہ آپ ہمیں بتائیے، ہم ان میں سے جتنی ادا کر سکیں گے اتنی لے لیں گے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر پڑھنے کے بعد رکے رہتے یہاں تک کہ جب سورج مشرق (پورب) کی جانب سے اتنا بلند ہو جاتا جتنا کہ عصر کے وقت مغرب (پچھم) کی جانب سے ہوتا ہے تو کھڑے ہوتے اور دو رکعت پڑھتے، ۱؎ پھر ٹھہر جاتے یہاں تک کہ جب سورج (پورب) کی جانب سے اتنا بلند ہو جاتا جتنا ظہر کے وقت مغرب (پچھم) کی طرف سے بلند ہوتا ہے، تو آپ کھڑے ہوتے اور چار رکعت پڑھتے، ۲؎ اور جب سورج ڈھل جاتا تو نماز ظہر سے پہلے چار رکعت اور اس کے بعد دو رکعت پڑھتے، اور چار رکعت عصر سے پہلے جن میں ہر دو رکعت کے درمیان مقرب فرشتوں، انبیاء کرام اور ان کے پیروکار مسلمانوں اور مومنوں پر سلام بھیج کر فصل کرتے۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ سب سولہ رکعتیں ہوئیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دن میں بطور نفل پڑھتے، اور ایسے لوگ بہت کم ہیں جو پابندی کے ساتھ انہیں پڑھتے رہیں۔ راوی حدیث وکیع کہتے ہیں کہ میرے والد نے اس حدیث میں اتنا اضافہ کیا کہ حبیب بن ابی ثابت نے ابواسحاق سے کہا کہ اے ابواسحاق! اگر اس حدیث کے بدلے مجھے تمہاری اس مسجد بھر سونا ملتا تو میں پسند نہیں کرتا۔

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة 301 (598، 599)، سنن النسائی/الإمامة 65 (875، 876)، (تحفةالأشراف: 10137)، مسند احمد (1/85) (حسن) (شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ابو اسحاق مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کی ہے، نیز ملاحظہ ہو: الصحیحة: 237)

وضاحت: ۱؎: یہ اشراق کی نماز ہوتی۔ ۲؎: یہ صلاۃ الضحیٰ (چاشت کی نماز) ہوتی۔

قال الشيخ الألباني: حسن

Share this: