احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

8: باب الطَّلاَقِ عَلَى غَيْظٍ
باب: غصہ کی حالت میں طلاق دینے کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 2193
حدثنا عبيد الله بن سعد الزهري، ان يعقوب بن إبراهيم حدثهم، قال: حدثنا ابي، عن ابن إسحاق، عن ثور بن يزيد الحمصي، عن محمد بن عبيد بن ابي صالح الذي كان يسكن إيليا، قال: خرجت مع عدي بن عدي الكندي حتى قدمنا مكة فبعثني إلى صفية بنت شيبة وكانت قد حفظت من عائشة، قالت: سمعت عائشة، تقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:"لا طلاق ولا عتاق في غلاق". قال ابو داود: الغلاق اظنه في الغضب.
محمد بن عبید بن ابوصالح (جو ایلیاء میں رہتے تھے) کہتے ہیں کہ میں عدی بن عدی کندی کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ میں مکہ آیا تو انہوں نے مجھے صفیہ بنت شیبہ کے پاس بھیجا، اور انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیثیں یاد کر رکھی تھیں، وہ کہتی ہیں: میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: زبردستی کی صورت میں طلاق دینے اور آزاد کرنے کا اعتبار نہیں ہو گا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ غلاق کا مطلب غصہ ہے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 17855)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الطلاق 16 (2046)، مسند احمد (6/276) (حسن) (اس کے راوی محمد بن عبید ضعیف ہیں، لیکن دوسرے رواة کی متابعت و تقویت سے یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو:ا رواء الغلیل: 2047، وصحیح ابی داود: 6؍ 396)

وضاحت: ۱؎: اس باب کے الفاظ کی روایت تین طرح ہے: «على غيظ»، «على غضب»، «على غلطٍ» اور حدیث میں «غلاق»، «إغلاق» جس کے معنی مؤلف نے غضب کے لئے ہیں، حالانکہ کوئی بھی آدمی بغیر غیظ و غضب کے طلاق نہیں دیتا، اس طرح تو کوئی طلاق واقع ہی نہیں ہو گی، اس لئے «إغلاق» کا معنی زبردستی لینا بہتر ہے، اور تحقیقی بات یہی ہے کہ زبردستی لی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف / ن 2046 ¤ محمد بن عبيد بن أبي صالح وثقه ابن حبان والحاكم وضعفه أبو حاتم الرازي و ابن حجر وضعفه راجح وللحديث شواهد ضعيفة ، وله لون آخر عند ابن ماجه (2046) و سنده ضعيف ۔

Share this: