احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

17: باب فِي فَضْلِ الْحَرْسِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى
باب: اللہ کی راہ میں پہرہ دینے کی فضیلت کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 2501
حدثنا ابو توبة، حدثنا معاوية يعني ابن سلام، عن زيد يعني ابن سلام، انه سمع ابا سلام قال: حدثني السلولي ابو كبشة، انه حدثه سهل ابن الحنظلية انهم ساروا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين، فاطنبوا السير حتى كانت عشية، فحضرت الصلاة عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاء رجل فارس فقال: يا رسول الله إني انطلقت بين ايديكم حتى طلعت جبل كذا وكذا فإذا انا بهوازن على بكرة آبائهم بظعنهم ونعمهم وشائهم اجتمعوا إلى حنين فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال:"تلك غنيمة المسلمين غدا إن شاء الله، ثم قال: من يحرسنا الليلة، قال: انس بن ابي مرثد الغنوي: انا يا رسول الله ؟، قال: فاركب، فركب فرسا له فجاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: استقبل هذا الشعب حتى تكون في اعلاه ولا نغرن من قبلك الليلة، فلما اصبحنا خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى مصلاه فركع ركعتين، ثم قال: هل احسستم فارسكم ؟، قالوا: يا رسول الله ما احسسناه فثوب بالصلاة فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي وهو يلتفت إلى الشعب حتى إذا قضى صلاته وسلم، قال: ابشروا فقد جاءكم فارسكم، فجعلنا ننظر إلى خلال الشجر في الشعب فإذا هو قد جاء حتى وقف على رسول الله صلى الله عليه وسلم فسلم، فقال: إني انطلقت حتى كنت في اعلى هذا الشعب حيث امرني رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما اصبحت اطلعت الشعبين كليهما فنظرت فلم ار احدا، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: هل نزلت الليلة ؟، قال: لا، إلا مصليا او قاضيا حاجة، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: قد اوجبت فلا عليك ان لا تعمل بعدها".
سہل بن حنظلیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کے دن چلے اور بہت ہی تیزی کے ساتھ چلے، یہاں تک کہ شام ہو گئی، میں نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اتنے میں ایک سوار نے آ کر کہا: اللہ کے رسول! میں آپ لوگوں کے آگے گیا، یہاں تک کہ فلاں فلاں پہاڑ پر چڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ سب کے سب اپنی عورتوں، چوپایوں اور بکریوں کے ساتھ بھاری تعداد میں مقام حنین میں جمع ہیں، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: ان شاءاللہ یہ سب کل ہم مسلمانوں کا مال غنیمت ہوں گے، پھر فرمایا: رات میں ہماری پہرہ داری کون کرے گا؟ انس بن ابومرثد غنوی رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میں کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو سوار ہو جاؤ، چنانچہ وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس گھاٹی میں جاؤ یہاں تک کہ اس کی بلندی پہ پہنچ جاؤ اور ایسا نہ ہو کہ ہم تمہاری وجہ سے آج کی رات دھوکہ کھا جائیں، جب ہم نے صبح کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مصلے پر آئے، آپ نے دو رکعتیں پڑھیں پھر فرمایا: تم نے اپنے سوار کو دیکھا؟ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے اسے نہیں دیکھا، پھر نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے لگے لیکن دوران نماز کنکھیوں سے گھاٹی کی طرف دیکھ رہے تھے، یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے اور سلام پھیرا تو فرمایا: خوش ہو جاؤ! تمہارا سوار آ گیا، ہم درختوں کے درمیان سے گھاٹی کی طرف دیکھنے لگے، یکایک وہی سوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور سلام کیا اور کہنے لگا: میں گھاٹی کے بالائی حصہ پہ چلا گیا تھا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تھا تو جب صبح کی تو میں نے دونوں گھاٹیوں پر چڑھ کر دیکھا تو کوئی بھی نہیں دکھائی پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: کیا تم آج رات گھوڑے سے اترے تھے؟، انہوں نے کہا: نہیں، البتہ نماز پڑھنے کے لیے یا قضائے حاجت کے لیے اترا تھا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: تم نے اپنے لیے جنت کو واجب کر لیا، اب اگر اس کے بعد تم عمل نہ کرو تو تمہیں کچھ نقصان نہ ہو گا ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 4650)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الکبری/ السیر (8870) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی تمہارے لئے تمہارا یہی عمل جنت میں داخل ہونے کے لئے کافی ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: