احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

28: باب كَيْفَ الأَذَانُ
باب: اذان کس طرح دی جائے؟
سنن ابي داود حدیث نمبر: 499
حدثنا محمد بن منصور الطوسي، حدثنا يعقوب، حدثنا ابي، عن محمد بن إسحاق، حدثني محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي، عن محمد بن عبد الله بن زيد بن عبد ربه، قال: حدثني ابي عبد الله بن زيد، قال:"لما امر رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناقوس يعمل ليضرب به للناس لجمع الصلاة، طاف بي وانا نائم رجل يحمل ناقوسا في يده، فقلت: يا عبد الله، اتبيع الناقوس ؟ قال: وما تصنع به ؟ فقلت: ندعو به إلى الصلاة، قال: افلا ادلك على ما هو خير من ذلك ؟ فقلت له: بلى، قال: فقال: تقول: الله اكبر الله اكبر، الله اكبر الله اكبر، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان محمدا رسول الله، اشهد ان محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الصلاة، حي على الفلاح، حي على الفلاح، الله اكبر، الله اكبر، لا إله إلا الله، قال: ثم استاخر عني غير بعيد، ثم قال: وتقول إذا اقمت الصلاة: الله اكبر، الله اكبر، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الفلاح، قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة، الله اكبر، الله اكبر، لا إله إلا الله، فلما اصبحت، اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبرته بما رايت، فقال: إنها لرؤيا حق إن شاء الله، فقم مع بلال فالق عليه ما رايت فليؤذن به فإنه اندى صوتا منك، فقمت مع بلال فجعلت القيه عليه ويؤذن به، قال: فسمع ذلك عمر بن الخطاب وهو في بيته فخرج يجر رداءه، ويقول: والذي بعثك بالحق يا رسول الله، لقد رايت مثل ما راى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فلله الحمد"، قال ابو داود: هكذا رواية الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن عبد الله بن زيد، وقال فيه ابن إسحاق: عن الزهري، الله اكبر الله اكبر، الله اكبر الله اكبر، وقال معمر،ويونس: عن الزهري فيه، الله اكبر، الله اكبر، لم يثنيا.
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناقوس کی تیاری کا حکم دینے کا ارادہ کیا تاکہ لوگوں کو نماز کی خاطر جمع ہونے کے لیے اسے بجایا جا سکے تو ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ ایک شخص ۱؎ کے ہاتھ میں ناقوس ہے، میں نے اس سے پوچھا: اللہ کے بندے! کیا اسے فروخت کرو گے؟ اس نے کہا: تم اسے کیا کرو گے؟ میں نے کہا: ہم اس کے ذریعے لوگوں کو نماز کے لیے بلائیں گے، اس شخص نے کہا: کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتا دوں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور بتائیے، تو اس نے کہا: تم اس طرح کہو «الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حى على الصلاة حى على الصلاة حى على الفلاح حى على الفلاح الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله» اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، نماز کے لیے آؤ، نماز کے لیے آؤ، کامیابی کی طرف آؤ، کامیابی کی طرف آؤ، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر وہ شخص مجھ سے تھوڑا پیچھے ہٹ گیا، زیادہ دور نہیں گیا پھر اس نے کہا: جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اس طرح کہو: «الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله حى على الصلاة حى على الفلاح قد قامت الصلاة قد قامت الصلاة الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله» ۔ پھر جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور جو کچھ میں نے دیکھا تھا اسے آپ سے بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان شاءاللہ یہ خواب سچا ہے، پھر فرمایا: تم بلال کے ساتھ اٹھ کر جاؤ اور جو کلمات تم نے خواب میں دیکھے ہیں وہ انہیں بتاتے جاؤ تاکہ اس کے مطابق وہ اذان دیں کیونکہ ان کی آواز تم سے بلند ہے ۲؎۔ چنانچہ میں بلال کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا، میں انہیں اذان کے کلمات بتاتا جاتا تھا اور وہ اسے پکارتے جاتے تھے۔ وہ کہتے ہیں: تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے گھر میں سے سنا تو وہ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے نکلے اور کہہ رہے تھے: اللہ کے رسول! اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے بھی اسی طرح دیکھا ہے جس طرح عبداللہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الحمدللہ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح زہری کی روایت ہے، جسے انہوں نے سعید بن مسیب سے، اور سعید نے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اس میں ابن اسحاق نے زہری سے یوں نقل کیا ہے: «الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر» (یعنی چار بار) اور معمر اور یونس نے زہری سے صرف «الله أكبر الله أكبر» کی روایت کی ہے، اسے انہوں نے دہرایا نہیں ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة 25 (189)، سنن ابن ماجہ/الأذان 1 (706)، (تحفة الأشراف: 5309)، مسند احمد (4/42)، سنن الدارمی/الصلاة 3 (1224) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یہ ایک فرشتہ تھا جو اللہ کی طرف سے اذان سکھانے کے لئے مامور ہوا تھا۔
۲؎: اس سے معلوم ہوا کہ مؤذن کا بلند آواز ہونا بہتر ہے۔ بلال رضی اللہ عنہ کی اذان میں اذان دہری اور اقامت اکہری ذکر ہوئی ہے۔ فجر کی اذان میں «الصلاة خير من النوم» کہنا مسنون اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے (سنن ابوداود، حدیث نمبر ۵۰۱ دیکھئیے)۔ بلال رضی اللہ اور ابومحذورہ رضی اللہ عنہا کی اذانوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اذان سے پہلے کوئی کلمات نہیں ہیں۔ حتی کہ «اعوذ باللہ من الشیطان الرحیم» یا «بسم اللہ الرحمن الرحیم» بھی نہیں، اذان اللہ اکبر سے شروع ہو گی۔ اسی طرح آخر میں «لا الہ الا اللہ» کے بعد «محمد رسول اللہ» بھی نہیں ہے جیسا کہ بعض سادہ لوح موذن کرتے ہیں۔ اس سے ترجیع یعنی شہادتین کو دو دو بار کہنا ثابت ہوا۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

Share this: