احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

27: باب بَدْءِ الأَذَانِ
باب: اذان کی ابتداء کیسے ہوئی؟
سنن ابي داود حدیث نمبر: 498
حدثنا عباد بن موسى الختلي، وزياد بن ايوب، وحديث عباد اتم، قالا: حدثنا هشيم، عن ابي بشر، قال زياد، اخبرنا ابو بشر، عن ابي عمير بن انس، عن عمومة له من الانصار، قال:"اهتم النبي صلى الله عليه وسلم للصلاة كيف يجمع الناس لها، فقيل له: انصب راية عند حضور الصلاة فإذا راوها آذن بعضهم بعضا، فلم يعجبه ذلك، قال: فذكر له القنع يعني الشبور، وقال زياد: شبور اليهود فلم يعجبه ذلك، وقال: هو من امر اليهود، قال: فذكر له الناقوس، فقال: هو من امر النصارى، فانصرف عبد الله بن زيد بن عبد ربه وهو مهتم لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاري الاذان في منامه، قال: فغدا على رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبره، فقال له: يا رسول الله، إني لبين نائم ويقظان إذ اتاني آت فاراني الاذان، قال: وكان عمر بن الخطاب رضي الله عنه قد رآه قبل ذلك فكتمه عشرين يوما، قال: ثم اخبر النبي صلى الله عليه وسلم، فقال له: ما منعك ان تخبرني ؟ فقال: سبقني عبد الله بن زيد فاستحييت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا بلال، قم فانظر ما يامرك به عبد الله بن زيد فافعله، قال: فاذن بلال، قال ابو بشر: فاخبرني ابو عمير، ان الانصار تزعم ان عبد الله بن زيد لولا انه كان يومئذ مريضا لجعله رسول الله صلى الله عليه وسلم مؤذنا".
ابو عمیر بن انس اپنے ایک انصاری چچا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فکرمند ہوئے کہ لوگوں کو کس طرح نماز کے لیے اکٹھا کیا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ نماز کا وقت ہونے پر ایک جھنڈا نصب کر دیجئیے، جسے دیکھ کر ایک شخص دوسرے کو باخبر کر دے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ رائے پسند نہ آئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بگل ۱؎ کا ذکر کیا گیا، زیاد کی روایت میں ہے: یہود کے بگل (کا ذکر کیا گیا) تو یہ تجویز بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہیں آئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں یہودیوں کی مشابہت ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ناقوس کا ذکر کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں نصرانیوں کی مشابہت ہے۔ پھر عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے لوٹے، وہ بھی (اس مسئلہ میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح فکرمند تھے، چنانچہ انہیں خواب میں اذان کا طریقہ بتایا گیا۔ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: وہ صبح تڑکے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ کو اس خواب کی خبر دی اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں کچھ سو رہا تھا اور کچھ جاگ رہا تھا کہ اتنے میں ایک شخص (خواب میں) میرے پاس آیا اور اس نے مجھے اذان سکھائی، راوی کہتے ہیں: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس سے پہلے یہ خواب دیکھ چکے تھے لیکن وہ بیس دن تک خاموش رہے، پھر انہوں نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ نے ان سے فرمایا: تم کو کس چیز نے اسے بتانے سے روکا؟، انہوں نے کہا: چونکہ مجھ سے پہلے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے اسے آپ سے بیان کر دیا اس لیے مجھے شرم آ رہی تھی ۲؎، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال! اٹھو اور جیسے عبداللہ بن زید تم کو کرنے کو کہیں اسی طرح کرو، چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی ۳؎۔ ابوبشر کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوعمیر نے بیان کیا کہ انصار سمجھتے تھے کہ اگر عبداللہ بن زید ان دنوں بیمار نہ ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان ہی کو مؤذن بناتے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15604) (حسن)

وضاحت: ۱؎: بخاری کی روایت میں «بوقۃ» کا لفظ ہے اور مسلم اور نسائی کی روایت میں «قرن» کا لفظ آیا ہے، یہ چاروں الفاظ ( «قنع»، «شبور»، «بوقۃ» اور «قرن») ہم معنی الفاظ ہیں، یعنی بگل اور نرسنگھا جس سے پھونک مارنے پر آواز نکلے۔
۲؎: عمر رضی اللہ عنہ خواب دیکھنے کے بعد بھول گئے تھے، بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سننے پر آپ کو یہ کلمات یاد آئے، اور جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ اپنا خواب بیان کر چکے تھے۔
۳؎: یہ اہتمام ۲ ہجری میں ہوا اس کے پہلے بغیر اذان کے نماز پڑھی جاتی تھی، اور لوگ خود بخود مسجد میں جمع ہو جایا کرتے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: