احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

47: باب فِي عِدَّةِ الْحَامِلِ
باب: حاملہ کی عدت کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 2306
حدثنا سليمان بن داود المهري، اخبرنا ابن وهب، اخبرني يونس، عن ابن شهاب، حدثني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة،"ان اباه كتب إلى عمر بن عبد الله بن الارقم الزهري يامره، ان يدخل على سبيعة بنت الحارث الاسلمية فيسالها عن حديثها وعما قال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم حين استفتته، فكتب عمر بن عبد الله إلى عبد الله بن عتبة يخبره، ان سبيعة اخبرته، انها كانت تحت سعد بن خولة وهو من بني عامر بن لؤي، وهو ممن شهد بدرا فتوفي عنها في حجة الوداع وهي حامل، فلم تنشب ان وضعت حملها بعد وفاته، فلما تعلت من نفاسها تجملت للخطاب، فدخل عليها ابو السنابل بن بعكك رجل من بني عبد الدار، فقال لها: ما لي اراك متجملة، لعلك ترتجين النكاح، إنك والله ما انت بناكح حتى تمر عليك اربعة اشهر وعشر، قالت سبيعة: فلما قال لي ذلك، جمعت علي ثيابي حين امسيت، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فسالته عن ذلك، فافتاني باني قد حللت حين وضعت حملي، وامرني بالتزويج إن بدا لي". قال ابن شهاب: ولا ارى باسا ان تتزوج حين وضعت وإن كانت في دمها، غير انه لا يقربها زوجها حتى تطهر.
ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ مجھ سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا کہ ان کے والد نے عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری کو لکھا کہ وہ سبیعہ بنت حارث اسلمیہ رضی اللہ عنہا کے پاس جا کر ان کی حدیث معلوم کریں، نیز معلوم کریں کہ جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا تو آپ نے کیا ارشاد فرمایا؟ چنانچہ عمر بن عبداللہ نے عبداللہ بن عتبہ کو لکھا، وہ انہیں بتا رہے تھے کہ انہیں سبیعہ نے بتایا ہے کہ وہ سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں (وہ بنی عامر بن لوی کے ایک فرد، اور بدری صحابی ہیں) حجۃ الوداع کے موقعہ پر جب وہ حاملہ تھیں تو ان کا انتقال ہو گیا، انتقال کے بعد انہوں نے بچہ جنا، جب نفاس سے پاک ہو گئیں تو نکاح کا پیغام دینے والوں کے لیے بناؤ سنگار کیا تو بنی عبدالدار کا ایک شخص ابوسنابل بن بعکک رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور کہنے لگے: میں تمہیں بنی سنوری ہوئی دیکھ رہا ہوں، شاید نکاح کرنا چاہتی ہو، اللہ کی قسم! تم چار مہینے دس دن (کی عدت) گزارے بغیر نکاح نہیں کر سکتی۔ سبیعہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: جب انہوں نے مجھ سے اس طرح کی گفتگو کی تو میں شام کے وقت پہن اوڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مسئلہ بتایا اور فرمایا کہ بچہ جننے کے بعد ہی میں حلال ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ اگر میں چاہوں تو شادی کر سکتی ہوں۔ ابن شہاب کہتے ہیں: میرے خیال میں بچہ جننے کے بعد عورت کے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں گرچہ وہ حالت نفاس ہی میں ہو البتہ پاک ہونے تک شوہر صحبت نہیں کرے گا ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المغازي 10 (3991 تعلیقًا)، الطلاق 39 (5320)، صحیح مسلم/الطلاق 8 (1484)، سنن النسائی/الطلاق 56 (3518، 3519)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 7 (2028)، (تحفة الأشراف: 15890)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/432) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: پہلے یہ آیت اتری تھی: «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا يتربصن بأنفسهن أربعة أشهر وعشرا» یہ آیت سورہ بقرہ (آیت: ۲۳۴) کی ہے، اس میں حاملہ اور غیر حاملہ دونوں داخل تھیں، پھر سورہ طلاق والی آیت نمبر (۴) «وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن» نازل ہوئی تو حاملہ کی عدت وضع حمل (بچہ کی پیدائش) قرار پائی اور غیر حاملہ کی چار مہینہ دس دن پہلی آیت کے موافق برقرار رہی اکثر علماء کا یہی مذہب ہے اور بعض علماء کے نزدیک چونکہ دونوں آیتیں متعارض ہیں اس لئے دونوں میں سے جو مدت لمبی «أبعد الأجلين» ہو اسے اختیار کرے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح م خ معلقا بتمامه وموصولا مختصرا

Share this: