احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

91: باب فِي نَبِيذِ السِّقَايَةِ
باب: حاجیوں کے لیے نبیذ کی سبیل لگانے کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 2021
حدثنا عمرو بن عون، حدثنا خالد، عن حميد، عن بكر بن عبد الله، قال: قال رجل لابن عباس: ما بال اهل هذا البيت يسقون النبيذ وبنو عمهم يسقون اللبن والعسل والسويق، ابخل بهم ام حاجة ؟ فقال ابن عباس: ما بنا من بخل ولا بنا من حاجة، ولكن دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم على راحلته وخلفه اسامة بن زيد، فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بشراب، فاتي بنبيذ، فشرب منه ودفع فضله إلى اسامة بن زيد فشرب منه، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"احسنتم واجملتم"، كذلك فافعلوا، فنحن هكذا لا نريد ان نغير ما قاله رسول الله صلى الله عليه وسلم.
بکر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے پوچھا: کیا وجہ ہے کہ اس گھر کے لوگ نبیذ (کھجور کا شربت) پلاتے ہیں اور آپ کے چچا کے بیٹے (قریش) دودھ، شہد اور ستو پلاتے ہیں؟ کیا یہ لوگ بخیل یا محتاج ہیں؟ ابن عباس نے کہا: نہ ہم بخیل ہیں اور نہ محتاج، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز اپنی سواری پر بیٹھ کر آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پینے کو کچھ مانگا تو نبیذ پیش کیا گیا، آپ نے اس میں سے پیا اور باقی ماندہ اسامہ رضی اللہ عنہ کو دے دیا، تو انہوں نے بھی اس میں سے پیا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے اچھا کیا اور خوب کیا ایسے ہی کیا کرو، تو ہم اسی کو اختیار کئے ہوئے ہیں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا، اسے ہم بدلنا نہیں چاہتے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحج 60 (1316)، (تحفة الأشراف: 5373)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/245، 292، 336، 369، 373) (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: