احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

108: باب فِي حُكْمِ الْجَاسُوسِ إِذَا كَانَ مُسْلِمًا
باب: جاسوس اگر مسلمان ہو اور کافروں کے لیے جاسوسی کرے تو اس کے حکم کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 2650
حدثنا مسدد، حدثنا سفيان، عن عمرو، حدثه الحسن بن محمد بن علي، اخبره عبيد الله بن ابي رافع، وكان كاتبا لعلي بن ابي طالب، قال: سمعت عليا يقول: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم انا والزبير والمقداد فقال: انطلقوا حتى تاتوا روضة خاخ فإن بها ظعينة معها كتاب فخذوه منها، فانطلقنا تتعادى بنا خيلنا حتى اتينا الروضة فإذا نحن بالظعينة، فقلنا: هلمي الكتاب فقالت: ما عندي من كتاب فقلت: لتخرجن الكتاب او لنلقين الثياب فاخرجته من عقاصها فاتينا به النبي صلى الله عليه وسلم فإذا هو من حاطب بن ابي بلتعة إلى ناس من المشركين يخبرهم ببعض امر رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:"ما هذا يا حاطب ؟ فقال: يا رسول الله لا تعجل علي فإني كنت امرا ملصقا في قريش ولم اكن من انفسها وإن قريشا لهم بها قرابات يحمون بها اهليهم بمكة، فاحببت إذ فاتني ذلك ان اتخذ فيهم يدا يحمون قرابتي بها، والله يا رسول الله ما كان بي من كفر ولا ارتداد فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: صدقكم فقال عمر: دعني اضرب عنق هذا المنافق، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قد شهد بدرا وما يدريك لعل الله اطلع على اهل بدر فقال: اعملوا ما شئتم فقد غفرت لكم.
عبیداللہ بن ابی رافع جو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے منشی تھے، کہتے ہیں: میں نے علی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، زبیر اور مقداد تینوں کو بھیجا اور کہا: تم لوگ جاؤ یہاں تک کہ روضہ خاخ ۱؎ پہنچو، وہاں ایک عورت کجاوہ میں بیٹھی ہوئی اونٹ پر سوار ملے گی اس کے پاس ایک خط ہے تم اس سے اسے چھین لینا، تو ہم اپنے گھوڑے دوڑاتے ہوئے چلے یہاں تک کہ روضہ خاخ پہنچے اور دفعتاً اس عورت کو جا لیا، ہم نے اس سے کہا: خط لاؤ، اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں ہے، میں نے کہا: خط نکالو ورنہ ہم تمہارے کپڑے اتار دیں گے، اس عورت نے وہ خط اپنی چوٹی سے نکال کر دیا، ہم اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے، وہ حاطب بن ابوبلتعہ رضی اللہ عنہ کی جانب سے کچھ مشرکوں کے نام تھا، وہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض امور سے آگاہ کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: حاطب یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے سلسلے میں جلدی نہ کیجئے، میں تو ایسا شخص ہوں جو قریش میں آ کر شامل ہوا ہوں یعنی ان کا حلیف ہوں، خاص ان میں سے نہیں ہوں، اور جو لوگ قریش کی قوم سے ہیں وہاں ان کے قرابت دار ہیں، مشرکین اس قرابت کے سبب مکہ میں ان کے مال اور عیال کی نگہبانی کرتے ہیں، چونکہ میری ان سے قرابت نہیں تھی، میں نے چاہا کہ میں ان کے حق میں کوئی ایسا کام کر دوں جس کے سبب مشرکین مکہ میرے اہل و عیال کی نگہبانی کریں، قسم اللہ کی! میں نے یہ کام نہ کفر کے سبب کیا اور نہ ہی ارتداد کے سبب، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے تم سے سچ کہا، اس پر عمر رضی اللہ عنہ بولے: مجھے چھوڑئیے، میں اس منافق کی گردن مار دوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جنگ بدر میں شریک رہے ہیں، اور تمہیں کیا معلوم کہ اللہ نے اہل بدر کو جھانک کر نظر رحمت سے دیکھا، اور فرمایا: تم جو چاہو کرو میں تمہیں معاف کر چکا ہوں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجھاد 141 (3007)، والمغازي 9 (3983)، وتفسیر الممتحنة 1 (4890)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 36 (2494)، سنن الترمذی/تفسیرالقرآن 60 (3305)، (تحفة الأشراف: 10227)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/79، 2/296) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: مدینہ سے بارہ میل کی دوری پر ایک مقام کا نام ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: