احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

69: باب مَنْ لَمْ يُدْرِكْ عَرَفَةَ
باب: جسے عرفات کا وقوف نہ مل سکے اس کے حکم کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 1949
حدثنا محمد بن كثير، حدثنا سفيان، حدثني بكير بن عطاء، عن عبد الرحمن بن يعمر الديلي، قال:"اتيت النبي صلى الله عليه وسلم وهو بعرفة، فجاء ناس او نفر من اهل نجد، فامروا رجلا فنادى رسول الله صلى الله عليه وسلم، كيف الحج ؟ فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا فنادى: الحج، الحج يوم عرفة، من جاء قبل صلاة الصبح من ليلة جمع فتم حجه ايام منى ثلاثة، فمن تعجل في يومين فلا إثم عليه، ومن تاخر فلا إثم عليه، قال: ثم اردف رجلا خلفه فجعل ينادي بذلك". قال ابو داود: وكذلك رواه مهران، عن سفيان، قال:"الحج الحج مرتين"، ورواه يحيى بن سعيد القطان، عن سفيان، قال:"الحج مرة".
عبدالرحمٰن بن یعمر دیلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ عرفات میں تھے، اتنے میں نجد والوں میں سے کچھ لوگ آئے، ان لوگوں نے ایک شخص کو حکم دیا تو اس نے آواز دی: اللہ کے رسول! حج کیوں کر ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو حکم دیا تو اس نے پکار کر کہا: حج عرفات میں وقوف ہے ۱؎ جو شخص مزدلفہ کی رات کو فجر سے پہلے (عرفات میں) آ جائے تو اس کا حج پورا ہو گیا، منیٰ کے دن تین ہیں (گیارہ، بارہ اور تیرہ ذی الحجہ)، جو شخص دو ہی دن کے بعد چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو تیسرے دن بھی رکا رہے اس پر کوئی گناہ نہیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اپنے پیچھے بٹھا لیا وہ یہی پکارتا جاتا تھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور اسی طرح مہران نے سفیان سے «الحج الحج» دو بار نقل کیا ہے اور یحییٰ بن سعید قطان نے سفیان سے «الحج» ایک ہی بار نقل کیا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الحج 57 (889)، سنن النسائی/الحج 203 (3019)، 211 (3047)، سنن ابن ماجہ/المناسک 57 (3015)، (تحفة الأشراف: 9735)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/309، 310، 335)، سنن الدارمی/المناسک 54 (1929) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی اصل حج عرفات میں وقوف ہے کیونکہ اس کے فوت ہو جانے سے حج فوت ہو جاتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: