احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

33: باب فِي وُجُوهِ النِّكَاحِ الَّتِي كَانَ يَتَنَاكَحُ بِهَا أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ
باب: زمانہ جاہلیت والوں کے نکاحوں کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 2272
حدثنا احمد بن صالح، حدثنا عنبسة بن خالد، حدثني يونس بن يزيد، قال: قال محمد بن مسلم بن شهاب، اخبرني عروة بن الزبير، ان عائشة رضي الله عنها زوج النبي صلى الله عليه وسلم اخبرته،"ان النكاح كان في الجاهلية على اربعة انحاء، فكان منها: نكاح الناس اليوم يخطب الرجل إلى الرجل وليته فيصدقها ثم ينكحها، ونكاح آخر كان الرجل يقول لامراته إذا طهرت من طمثها: ارسلي إلى فلان فاستبضعي منه، ويعتزلها زوجها ولا يمسها ابدا حتى يتبين حملها من ذلك الرجل الذي تستبضع منه، فإذا تبين حملها اصابها زوجها إن احب، وإنما يفعل ذلك رغبة في نجابة الولد، فكان هذا النكاح يسمى نكاح الاستبضاع، ونكاح آخر يجتمع الرهط دون العشرة فيدخلون على المراة كلهم يصيبها، فإذا حملت ووضعت ومر ليال بعد ان تضع حملها ارسلت إليهم فلم يستطع رجل منهم ان يمتنع حتى يجتمعوا عندها، فتقول لهم: قد عرفتم الذي كان من امركم، وقد ولدت وهو ابنك يا فلان، فتسمي من احبت منهم باسمه فيلحق به ولدها، ونكاح رابع يجتمع الناس الكثير فيدخلون على المراة لا تمتنع ممن جاءها وهن البغايا، كن ينصبن على ابوابهن رايات يكن علما لمن ارادهن دخل عليهن، فإذا حملت فوضعت حملها جمعوا لها ودعوا لهم القافة، ثم الحقوا ولدها بالذي يرون فالتاطه، ودعي ابنه لا يمتنع من ذلك، فلما بعث الله محمدا صلى الله عليه وسلم هدم نكاح اهل الجاهلية كله، إلا نكاح اهل الإسلام اليوم".
محمد بن مسلم بن شہاب کہتے ہیں کہ عروہ بن زبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا کہ زمانہ جاہلیت میں چار قسم کے نکاح ہوتے تھے: ایک تو ایسے ہی جیسے اس زمانے میں ہوتا ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی بہن یا بیٹی وغیرہ کے لیے نکاح کا پیغام دیتا ہے وہ مہر ادا کرتا ہے اور نکاح کر لیتا ہے۔ نکاح کی دوسری قسم یہ تھی کہ آدمی اپنی بیوی سے حیض سے پاک ہونے کے بعد کہہ دیتا کہ فلاں شخص کو بلوا لے، اور اس کا نطفہ حاصل کر لے پھر وہ شخص تب تک اپنی بیوی سے صحبت نہ کرتا جب تک کہ مطلوبہ شخص سے حمل نہ قرار پا جاتا، حمل ظاہر ہونے کے بعد ہی وہ چاہتا تو اس سے جماع کرتا، ایسا اس لیے کیا جاتا تھا تاکہ لڑکا نجیب (عمدہ نسب کا) ہو، اس نکاح کو نکاح استبضاع (نطفہ حاصل کرنے کا نکاح) کہا جاتا تھا۔ نکاح کی تیسری قسم یہ تھی کہ نو افراد تک کا ایک گروہ بن جاتا پھر وہ سب اس سے صحبت کرتے رہتے، جب وہ حاملہ ہو جاتی اور بچے کی ولادت ہوتی تو ولادت کے کچھ دن بعد وہ عورت ان سب لوگوں کو بلوا لیتی، کوئی آنے سے انکار نہ کرتا، جب سب جمع ہو جاتے تو کہتی: تمہیں اپنا حال معلوم ہی ہے، اور میں نے بچہ جنا ہے، پھر وہ جسے چاہتی اس کا نام لے کر کہتی کہ اے فلاں! یہ تیرا بچہ ہے، اور اس بچے کو اس کے ساتھ ملا دیا جاتا۔ نکاح کی چوتھی قسم یہ تھی کہ بہت سے لوگ جمع ہو جاتے اور ایک عورت سے صحبت کرتے، وہ کسی بھی آنے والے کو منع نہ کرتی، یہ بدکار عورتیں ہوتیں، ان کے دروازوں پر بطور نشانی جھنڈے لگے ہوتے، جو شخص بھی چاہتا ان سے صحبت کرتا، جب وہ حاملہ ہو جاتی اور بچہ جن دیتی تو سب جمع ہو جاتے، اور قیافہ شناس کو بلاتے، وہ جس کا بھی نام لیتا اس کے ساتھ ملا دیا جاتا، وہ بچہ اس کا ہو جاتا اور وہ کچھ نہ کہہ پاتا، تو جب اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنا کر بھیجا تو زمانہ جاہلیت کے سارے نکاحوں کو باطل قرار دے دیا سوائے اہل اسلام کے نکاح کے جو آج رائج ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح 36 (5127)، (تحفة الأشراف: 16711) (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: