احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

62: باب فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْمُسْلِمِ يَمُوتُ فِي بِلاَدِ الشِّرْكِ
باب: جو مسلمان مشرکین کے علاقے میں فوت ہو جائے۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 3204
حدثنا القعنبي، قال: قرات على مالك بن انس، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم"نعى للناس النجاشي في اليوم الذي مات فيه، وخرج بهم إلى المصلى، فصف بهم، وكبر اربع تكبيرات".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (حبشہ کا بادشاہ) نجاشی ۱؎ جس دن انتقال ہوا اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی موت کی اطلاع مسلمانوں کو دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو لے کر عید گاہ کی طرف نکلے، ان کی صفیں بنائیں اور چار تکبیروں کے ساتھ نماز (جنازہ) پڑھی ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز60 (1334)، ومناقب الأنصار 38 (3880)، صحیح مسلم/الجنائز 22 (951)، سنن النسائی/الجنائز 72 (1973)، (تحفة الأشراف: 13232)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ الجنائز 5 (14)، مسند احمد (2/438، 439) (صحیح)

وضاحت: وضاحت ۱؎: نجاشی حبشہ کے بادشاہ کا لقب ہے، ان کا نام اصحمہ تھا، یہ پہلے نصاری کے دین پر تھے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور جو صحابہ کرام ہجرت کر کے حبشہ گئے ان کی خوب خدمت کی جب وہ فوت ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدگاہ جا کر صحابہ کرام کے ساتھ ان کی نماز جنازہ پڑھی چونکہ ان کا انتقال حبشہ میں ہوا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ان کی نماز جنازہ پڑھی تھی اس سے بعض لوگوں نے نماز جنازہ غائبانہ کے جواز پر استدلال کیا ہے۔
۲؎: نماز جنازہ غائبانہ کے سلسلہ میں مناسب یہ ہے کہ اگر میت کی نماز جنازہ نہ پڑھی گئی ہو تب پڑھی جائے اور اگر پڑھی جا چکی ہے تو مسلمانوں کی طرف سے فرض کفایہ ادا ہو گیا، الا یہ کہ کوئی محترم اور صالح شخصیت ہو تو پڑھنا بہتر ہے یہی قول ابن تیمیہ، ابن قیم اور امام احمد ابن حنبل رحمہم اللہ کا ہے، عام مسلمانوں کا غائبانہ جنازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، اور نہ ہی تعامل امت سے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: