احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

14: باب فِي السُّرُجِ فِي الْمَسَاجِدِ
باب: مساجد میں چراغ جلانے کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 457
حدثنا النفيلي /a>، حدثنا مسكين، عن سعيد بن عبد العزيز، عن زياد بن ابي سودة، عن ميمونة مولاة النبي صلى الله عليه وسلم، انها قالت: يا رسول الله، افتنا في بيت المقدس، فقال:"ائتوه فصلوا فيه، وكانت البلاد إذ ذاك حربا، فإن لم تاتوه وتصلوا فيه، فابعثوا بزيت يسرج في قناديله".
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آزاد کردہ لونڈی میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ بیت المقدس کے سلسلے میں ہمیں حکم دیجئیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم وہاں جاؤ اور اس میں نماز پڑھو، اس زمانے میں ان شہروں میں لڑائی پھیلی ہوئی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم وہاں نہ جا سکو اور نماز نہ پڑھ سکو تو تیل ہی بھیج دو کہ اس کی قندیلوں میں جلایا جا سکے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 196 (1407)، (تحفة الأشراف: 18087)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/463) (ضعیف) (زیاد اور میمونہ کے درمیان سند میں انقطاع ہے، لیکن ابن ماجہ کی سند میں یہ واسطہ عثمان بن أبی سودة ہے، اس حدیث کی تصحیح بوصیری نے کی ہے، اور نووی نے تحسین کی ہے، البانی نے صحیح أبی داود (68) میں اس کی تصحیح کی ہے، اور اخیر خبر میں نکارت کا ذکر کیا ہے، ناشر نے یہ نوٹ لگایا ہے کہ البانی صاحب نے بعد میں صحیح أبی داود سے ضعیف أبی داود میں منتقل کر دیا ہے، بغیر اس کے کہ وہ اس پر اپنے فیصلے کو تبدیل کریں، جبکہ آخری حدیث میں ذہبی سے نکارت کی وجہ بیان کر دی ہے، کہ زیتون کا تیل فلسطین میں ہوتا ہے، تو حجاز سے اس کو وہاں بھیجنے کا کیا مطلب، اور یہ کہ یہ تیل نصارے کے لئے وہ بھیجیں کہ وہ صلیب و تمثال پر اس کو جلائیں، یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف / جه 1407 ¤ زياد بن أبي سودة رواه عن عثمان بن أبي سودة ولا يعرف لعثمان سماع من ميمونة رضي الله عنھا ، انظر المھذب في اختصار السنن الكبير للذھبي (402/2 ح 3133) فالسند معلل بالإنقطاع والحديث ضعفه الجمھور وقال الذھبي : ” وھذا خبر منكر “ ۔

Share this: