احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

57: باب أَيْنَ يَقُومُ الإِمَامُ مِنَ الْمَيِّتِ إِذَا صَلَّى عَلَيْهِ
باب: جنازہ پڑھاتے ہوئے امام میت کے مقابل کہاں کھڑا ہو؟
سنن ابي داود حدیث نمبر: 3194
حدثنا داود بن معاذ، حدثنا عبد الوارث، عن نافع ابي غالب، قال: كنت في سكة المربد، فمرت جنازة معها ناس كثير، قالوا: جنازة عبد الله بن عمير، فتبعتها، فإذا انا برجل عليه كساء رقيق على بريذينته، وعلى راسه خرقة تقيه من الشمس، فقلت: من هذا الدهقان ؟ قالوا: هذا انس بن مالك، فلما وضعت الجنازة، قام انس فصلى عليها، وانا خلفه، لا يحول بيني وبينه شيء، فقام عند راسه، فكبر اربع تكبيرات، لم يطل، ولم يسرع، ثم ذهب يقعد، فقالوا: يا ابا حمزة، المراة الانصارية، فقربوها وعليها نعش اخضر، فقام عند عجيزتها، فصلى عليها نحو صلاته على الرجل، ثم جلس، فقال العلاء بن زياد: يا ابا حمزة، هكذا كان يفعل رسول الله صلى الله عليه وسلم، يصلي على الجنازة كصلاتك: يكبر عليها اربعا، ويقوم عند راس الرجل، وعجيزة المراة ؟ قال: نعم، قال: يا ابا حمزة، غزوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ قال: نعم، غزوت معه حنينا، فخرج المشركون، فحملوا علينا حتى راينا خيلنا وراء ظهورنا، وفي القوم رجل يحمل علينا، فيدقنا، ويحطمنا، فهزمهم الله، وجعل يجاء بهم، فيبايعونه على الإسلام، فقال رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم: إن علي نذرا، إن جاء الله بالرجل الذي كان منذ اليوم يحطمنا، لاضربن عنقه، فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وجيء بالرجل، فلما راى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: يا رسول الله، تبت إلى الله، فامسك رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يبايعه، ليفي الآخر بنذره، قال: فجعل الرجل يتصدى لرسول الله صلى الله عليه وسلم ليامره بقتله، وجعل يهاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يقتله، فلما راى رسول الله صلى الله عليه وسلم انه لا يصنع شيئا، بايعه، فقال الرجل: يا رسول الله، نذري، فقال:"إني لم امسك عنه منذ اليوم، إلا لتوفي بنذرك، فقال: يا رسول الله، الا اومضت إلي ؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إنه ليس لنبي ان يومض، قال ابو غالب: فسالت عن صنيع انس في قيامه على المراة عند عجيزتها، فحدثوني انه إنما كان لانه لم تكن النعوش، فكان الإمام يقوم حيال عجيزتها يسترها من القوم، قال ابو داود: قول النبي صلى الله عليه وسلم: امرت ان اقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله"، نسخ من هذا الحديث: الوفاء بالنذر في قتله، بقوله: إني قد تبت.
نافع ابوغالب کہتے ہیں کہ میں سکۃ المربد (ایک جگہ کا نام ہے) میں تھا اتنے میں ایک جنازہ گزرا، اس کے ساتھ بہت سارے لوگ تھے، لوگوں نے بتایا کہ یہ عبداللہ بن عمیر کا جنازہ ہے، یہ سن کر میں بھی جنازہ کے ساتھ ہو لیا، تو میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ باریک شال اوڑھے ہوئے چھوٹی گھوڑی پر سوار ہے، دھوپ سے بچنے کے لیے سر پر ایک کپڑے کا ٹکڑا ڈالے ہوئے ہے، میں نے لوگوں سے پوچھا: یہ چودھری صاحب کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا: یہ انس بن مالک ۱؎ رضی اللہ عنہ ہیں، پھر جب جنازہ رکھا گیا تو انس رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور اس کی نماز جنازہ پڑھائی، میں ان کے پیچھے تھا، میرے اور ان کے درمیان کوئی چیز حائل نہ تھی تو وہ اس کے سر کے سامنے کھڑے ہوئے، چار تکبیریں کہیں (اور تکبیریں کہنے میں) نہ بہت دیر لگائی اور نہ بہت جلدی کی، پھر بیٹھنے لگے تو لوگوں نے کہا: ابوحمزہ! (انس رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے) یہ انصاری عورت کا بھی جنازہ ہے (اس کی بھی نماز پڑھا دیجئیے) یہ کہہ کر اسے قریب لائے، وہ ایک سبز تابوت میں تھی، وہ اس کے کولہے کے سامنے کھڑے ہوئے، اور ویسی ہی نماز پڑھی جیسی نماز مرد کی پڑھی تھی، پھر اس کے بعد بیٹھے، تو علاء بن زیاد نے کہا: اے ابوحمزہ! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح جنازے کی نماز پڑھا کرتے تھے جس طرح آپ نے پڑھی ہے؟ چار تکبیریں کہتے تھے، مرد کے سر کے سامنے اور عورت کے کولھے کے سامنے کھڑے ہوتے تھے، انہوں نے کہا: ہاں۔ علاء بن زیاد نے (پھر) کہا: ابوحمزہ! کیا آپ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں جنگ حنین ۲؎ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، مشرکین نکلے انہوں نے ہم پر حملہ کیا یہاں تک کہ ہم نے اپنے گھوڑوں کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے دیکھا ۳؎ اور قوم (کافروں) میں ایک حملہ آور شخص تھا جو ہمیں مار کاٹ رہا تھا (پھر جنگ کا رخ پلٹا) اللہ تعالیٰ نے انہیں شکست دی اور انہیں (اسلام کی چوکھٹ پر) لانا شروع کر دیا، وہ آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کرنے لگے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک شخص نے کہا کہ میں نے نذر مانی ہے اگر اللہ اس شخص کو لایا جو اس دن ہمیں مار کاٹ رہا تھا تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چپ رہے، پھر وہ (قیدی) رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا، اس نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو کہا: اللہ کے رسول! میں نے اللہ سے توبہ کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بیعت کرنے میں توقف کیا تاکہ دوسرا بندہ (یعنی نذر ماننے والا صحابی) اپنی نذر پوری کر لے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیعت لینے سے پہلے ہی اس کی گردن اڑا دے) لیکن وہ شخص رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرنے لگا کہ آپ اسے اس کے قتل کا حکم فرمائیں اور ڈر رہا تھا کہ ایسا نہ ہو میں اسے قتل کر ڈالوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خفا ہوں، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ وہ کچھ نہیں کرتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بیعت کر لی، تب اس صحابی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری نذر تو رہ گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں جو اب تک رکا رہا اور اس سے بیعت نہیں کی تھی تو اسی وجہ سے کہ اس دوران تم اپنی نذر پوری کر لو، اس نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے ہمیں اس کا اشارہ کیوں نہ فرما دیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی نبی کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ رمز سے اشارہ کرے۔ ابوغالب کہتے ہیں: میں نے انس رضی اللہ عنہ کے عورت کے کولہے کے سامنے کھڑے ہونے کے بارے میں پوچھا کہ (وہ وہاں کیوں کھڑے ہوئے) تو لوگوں نے بتایا کہ پہلے تابوت نہ ہوتا تھا تو امام عورت کے کولہے کے پاس کھڑا ہوتا تھا تاکہ مقتدیوں سے اس کی نعش چھپی رہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث: «أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله» سے اس کے قتل کی نذر پوری کرنے کو منسوخ کر دیا گیا ہے کیونکہ اس نے آ کر یہ کہا تھا کہ میں نے توبہ کر لی ہے، اور اسلام لے آیا ہوں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الجنائز 45 (1034)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 21 (1494)، (تحفة الأشراف: 1621)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/118، 151، 204) (صحیح) (مگر قال ابو غالب سے اخیر تک کا جملہ صحیح نہیں ہے)

وضاحت: ۱؎: جنہوں نے دس برس تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی، ۹۲ ہجری یا ۹۳ ہجری میں انتقال ہوا۔
۲؎: غزوہ حنین ۹ ہجری میں ہوا، حنین ایک جگہ کا نام ہے جو طائف کے نواح میں واقع ہے۔
۳؎: یعنی شکست کھا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح إلا قوله فحدثوني أنه إنما فإنه مجرد رأي عن مجهولين

Share this: