احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

75: باب مَنْ رَأَى أَنْ لاَ يُجْمَعَ بَيْنَهُمَا
باب: محمد نام اور ابوالقاسم کنیت ایک ساتھ نہ رکھے اس کے قائلین کی دلیل۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 4966
حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا هشام، عن ابي الزبير، عن جابر، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:"من تسمى باسمي، فلا يتكنى بكنيتي، ومن تكنى بكنيتي، فلا يتسمى باسمي", قال ابو داود: وروى بهذا المعنى ابن عجلان، عن ابيه، عن ابي هريرة، وروي عن ابي زرعة، عن ابي هريرة مختلفا على الروايتين، وكذلك رواية عبد الرحمن بن ابي عمرة، عن ابي هريرة , اختلف فيه رواه الثوري , وابن جريج على ما قال ابو الزبير، ورواه معقل بن عبيد الله , على ما قال ابن سيرين، واختلف فيه على موسى بن يسار، عن ابي هريرة ايضا على القولين اختلف فيه حماد بن خالد.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو میرا نام رکھے، وہ میری کنیت نہ رکھے، اور جو میری کنیت رکھے، وہ میرا نام نہ رکھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی مفہوم کی حدیث ابن عجلان نے اپنے والد سے، اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، اور ابوزرعہ کی روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان دونوں روایتوں سے مختلف روایت کی گئی ہے، اور اسی طرح عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ کی روایت جسے انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اس میں بھی کچھ اختلاف ہے، اسے ثوری اور ابن جریج نے ابو الزبیر کی طرح روایت کیا ہے، اور اسے معقل بن عبیداللہ نے ابن سیرین کی طرح روایت کیا ہے، اور جسے موسیٰ بن یسار نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اس میں بھی اختلاف کیا گیا ہے، حماد بن خالد اور ابن ابی فدیک کے دو مختلف قول ہیں ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 2983، 13612)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/313) (منکر) (ابوالزبیر مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، صحیح بخاری میں سالم بن ابی الجعد نے جابر سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سمو ا بأسمی ولا تکنوا بکنیتي'' الأدب 6187)

وضاحت: ۱؎: خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دونوں لفظوں کے ساتھ آئی ہے: اس طرح بھی جیسے محمد بن سیرین نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے، جو یہ ہے «تسموا باسمي ولا تكتنوا بكنيتي» میرے نام پر نام رکھو اور میری کنیت پر کنیت نہ رکھو اور اس طرح بھی جیسے ابوالزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، دونوں روایتوں میں فرق یہ ہے کہ بطریق ابوالزبیر عن جابر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اور کنیت الگ الگ رکھنے کا جواز ثابت ہو رہا ہے، اور بطریق ابن سیرین ابوہریرہ کی روایت سے نام رکھنے کا جواز اور کنیت رکھنے کا عدم جواز ثابت ہو رہا ہے، صحیح بخاری کی حدیث بطریق سالم بن ابی الجعد عن جابر رضی اللہ عنہ: ابن سیرین کی ابوہریرہ سے حدیث کی طرح ہے۔

قال الشيخ الألباني: منكر

Share this: