احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1: باب الأَمْرَاضِ الْمُكَفِّرَةِ لِلذُّنُوبِ
باب: گناہوں کے لیے کفارہ بننے والی بیماریوں کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 3089
حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي، حدثنا محمد بن سلمة، عن محمد بن إسحاق، قال: حدثني رجل من اهل الشام يقال له ابو منظور،عن عمه، قال: حدثني عمي، عن عامر الرام اخي الخضر، قال ابو داود، قال النفيلي: هو الخضر، ولكن كذا قال، قال: إني لببلادنا إذ رفعت لنا رايات والوية، فقلت: ما هذا ؟ قالوا: هذا لواء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاتيته، وهو تحت شجرة قد بسط له كساء، وهو جالس عليه، وقد اجتمع إليه اصحابه، فجلست إليهم، فذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم الاسقام، فقال:"إن المؤمن إذا اصابه السقم، ثم اعفاه الله منه، كان كفارة لما مضى من ذنوبه، وموعظة له فيما يستقبل، وإن المنافق إذا مرض ثم اعفي كان كالبعير، عقله اهله، ثم ارسلوه فلم يدر لم عقلوه، ولم يدر لم ارسلوه، فقال رجل ممن حوله: يا رسول الله، وما الاسقام ؟ والله ما مرضت قط، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قم عنا، فلست منا، فبينا نحن عنده إذ اقبل رجل عليه كساء، وفي يده شيء قد التف عليه، فقال: يا رسول الله، إني لما رايتك اقبلت إليك، فمررت بغيضة شجر، فسمعت فيها اصوات فراخ طائر، فاخذتهن فوضعتهن في كسائي، فجاءت امهن فاستدارت على راسي، فكشفت لها عنهن فوقعت عليهن معهن، فلففتهن بكسائي، فهن اولاء معي، قال: ضعهن عنك، فوضعتهن، وابت امهن إلا لزومهن، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لاصحابه: اتعجبون لرحم ام الافراخ فراخها ؟ قالوا: نعم يا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فوالذي بعثني بالحق، لله ارحم بعباده من ام الافراخ بفراخها، ارجع بهن حتى تضعهن من حيث اخذتهن، وامهن معهن، فرجع بهن".
خضر کے تیر انداز بھائی عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے ملک میں تھا کہ یکایک ہمارے لیے جھنڈے اور پرچم لہرائے گئے تو میں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پرچم ہے، تو میں آپ کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے ایک کمبل پر جو آپ کے لیے بچھایا گیا تھا تشریف فرما تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد آپ کے اصحاب اکٹھا تھے، میں بھی جا کر انہیں میں بیٹھ گیا ۱؎، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماریوں کا ذکر فرمایا: جب مومن بیمار پڑتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اس کو اس کی بیماری سے عافیت بخشتا ہے تو وہ بیماری اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے اور آئندہ کے لیے نصیحت، اور جب منافق بیمار پڑتا ہے پھر اسے عافیت دے دی جاتی ہے تو وہ اس اونٹ کے مانند ہے جسے اس کے مالک نے باندھ رکھا ہو پھر اسے چھوڑ دیا ہو، اسے یہ نہیں معلوم کہ اسے کس لیے باندھا گیا اور کیوں چھوڑ دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد موجود لوگوں میں سے ایک شخص نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! بیماریاں کیا ہیں؟ اللہ کی قسم میں کبھی بیمار نہیں ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اٹھ جا، تو ہم میں سے نہیں ہے ۲؎۔ عامر کہتے ہیں: ہم لوگ بیٹھے ہی تھے کہ ایک کمبل پوش شخص آیا جس کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی جس پر کمبل لپیٹے ہوئے تھا، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جب میں نے آپ کو دیکھا تو آپ کی طرف آ نکلا، راستے میں درختوں کا ایک جھنڈ دیکھا اور وہاں چڑیا کے بچوں کی آواز سنی تو انہیں پکڑ کر اپنے کمبل میں رکھ لیا، اتنے میں ان بچوں کی ماں آ گئی، اور وہ میرے سر پر منڈلانے لگی، میں نے اس کے لیے ان بچوں سے کمبل ہٹا دیا تو وہ بھی ان بچوں پر آ گری، میں نے ان سب کو اپنے کمبل میں لپیٹ لیا، اور وہ سب میرے ساتھ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کو یہاں رکھو، میں نے انہیں رکھ دیا، لیکن ماں نے اپنے بچوں کا ساتھ نہیں چھوڑا، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا: کیا تم اس چڑیا کے اپنے بچوں کے ساتھ محبت کرنے پر تعجب کرتے ہو؟، صحابہ نے عرض کیا: ہاں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے سچا پیغمبر بنا کر بھیجا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے اس سے کہیں زیادہ محبت رکھتا ہے جتنی یہ چڑیا اپنے بچوں سے رکھتی ہے، تم انہیں ان کی ماں کے ساتھ لے جاؤ اور وہیں چھوڑ آؤ جہاں سے انہیں لائے ہو، تو وہ شخص انہیں واپس چھوڑ آیا۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5056) (ضعیف) (اس کے راوی ابو منظور شامی مجہول ہیں)

وضاحت: ۱؎: یعنی میں بھی ان کے حلقے میں شریک ہو گیا، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وعظ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت سنوں اور دیکھوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں۔
۲؎:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تہدیدا فرمایا، یعنی مومن پر کوئی نہ کوئی مصیبت ضرور آتی ہے، تاکہ آخرت میں اس کے گناہوں کا کفارہ ہو، اس کے برخلاف کافروں کو اکثر دنیا میں راحت رہتی ہے، تاکہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ رہے، جو کچھ انہیں ملنا ہے دنیا ہی میں مل جائے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف ¤ أبو منظور الشامي مجهول : (تق:8394) والسند مظلم ۔

Share this: