احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

50: باب مَا يُكْرَهُ مِنْ ذِكْرِ الرَّجُلِ مَا يَكُونُ مِنْ إِصَابَةِ أَهْلِهِ
باب: بیوی سے جماع کا حال لوگوں کو بتانے کی کراہت کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 2174
حدثنا مسدد، حدثنا بشر، حدثنا الجريري. ح وحدثنا مؤمل، حدثنا إسماعيل. ح وحدثنا موسى، حدثنا حماد، كلهم عن الجريري، عن ابي نضرة، حدثني شيخ من طفاوة، قال: تثويت ابا هريرة بالمدينة، فلم ار رجلا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم اشد تشميرا ولا اقوم على ضيف منه، فبينما انا عنده يوما وهو على سرير له ومعه كيس فيه حصى او نوى واسفل منه جارية له سوداء وهو يسبح بها حتى إذا انفد ما في الكيس، القاه إليها فجمعته فاعادته في الكيس فدفعته إليه، فقال: الا احدثك عني وعن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: قلت: بلى، قال: بينا انا اوعك في المسجد، إذ جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى دخل المسجد، فقال:"من احس الفتى الدوسي"ثلاث مرات، فقال رجل: يا رسول الله، هو ذا يوعك في جانب المسجد، فاقبل يمشي حتى انتهى إلي فوضع يده علي، فقال لي:"معروفا"، فنهضت فانطلق يمشي حتى اتى مقامه الذي يصلي فيه، فاقبل عليهم ومعه صفان من رجال وصف من نساء، او صفان من نساء وصف من رجال، فقال:"إن انساني الشيطان شيئا من صلاتي فليسبح القوم وليصفق النساء"، قال: فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم ينس من صلاته شيئا، فقال:"مجالسكم مجالسكم، زاد موسى ها هنا، ثم حمد الله تعالى واثنى عليه"، ثم قال:"اما بعد"ثم اتفقوا، ثم اقبل على الرجال، فقال:"هل منكم الرجل إذا اتى اهله فاغلق عليه بابه والقى عليه ستره واستتر بستر الله ؟"قالوا: نعم، قال:"ثم يجلس بعد ذلك، فيقول: فعلت كذا فعلت كذا ؟"قال: فسكتوا، قال: فاقبل على النساء، فقال:"هل منكن من تحدث ؟"فسكتن، فجثت فتاة، قال مؤمل في حديثه: فتاة كعاب على إحدى ركبتيها، وتطاولت لرسول الله صلى الله عليه وسلم ليراها ويسمع كلامها، فقالت: يا رسول الله، إنهم ليتحدثون وإنهن ليتحدثنه، فقال:"هل تدرون ما مثل ذلك ؟"فقال:"إنما مثل ذلك مثل شيطانة لقيت شيطانا في السكة فقضى منها حاجته والناس ينظرون إليه، الا وإن طيب الرجال ما ظهر ريحه ولم يظهر لونه، الا إن طيب النساء ما ظهر لونه ولم يظهر ريحه". قال ابو داود: ومن ها هنا حفظته عن مؤمل و موسى، الا لا يفضين رجل إلى رجل ولا امراة إلى امراة إلا إلى ولد او والد، وذكر ثالثة فانسيتها، وهو في حديث مسدد، ولكني لم اتقنه كما احب، وقال موسى: حدثنا حماد، عن الجريري، عن ابي نضرة، عن الطفاوي.
ابونضرہ کہتے ہیں: مجھ سے قبیلہ طفاوہ کے ایک شیخ نے بیان کیا کہ مدینہ میں میں ایک بار ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا مہمان ہوا میں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کسی کو بھی مہمانوں کے معاملے میں ان سے زیادہ چاق و چوبند اور ان کی خاطر مدارات کرنے والا نہیں دیکھا، ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ میں ان کے پاس تھا، وہ اپنے تخت پر بیٹھے تھے ان کے ساتھ ایک تھیلی تھی جس میں کنکریاں یا گٹھلیاں تھیں، نیچے ایک کالی کلوٹی لونڈی تھی، آپ رضی اللہ عنہ ان کنکریوں پر تسبیح پڑھ رہے تھے، جب (پڑھتے پڑھتے) تھیلی ختم ہو جاتی تو انہیں لونڈی کی طرف ڈال دیتے، اور وہ انہیں دوبارہ تھیلی میں بھر کر دیتی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنا ایک واقعہ نہ بتاؤں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور بتائیے، انہوں نے کہا: میں مسجد میں تھا اور بخار میں مبتلا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے یہاں تک کہ مسجد میں داخل ہوئے اور کہنے لگے: کس نے دوسی جوان (ابوہریرہ) کو دیکھا ہے؟ یہ جملہ آپ نے تین بار فرمایا، تو ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! وہ یہاں مسجد کے کونے میں ہیں، انہیں بخار ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اپنا دست مبارک میرے اوپر رکھا، اور مجھ سے بھلی بات کی تو میں اٹھ گیا، اور آپ چل کر اسی جگہ واپس آ گئے، جہاں نماز پڑھاتے تھے، اور لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو صف مردوں اور ایک صف عورتوں کی تھی یا دو صف عورتوں کی اور ایک صف مردوں کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر نماز میں شیطان مجھے کچھ بھلا دے تو مرد سبحان اللہ کہیں، اور عورتیں تالی بجائیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور نماز میں کوئی چیز بھولے نہیں اور فرمایا: اپنی جگہوں پر بیٹھے رہو، اپنی جگہوں پر بیٹھے رہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر امابعد کہا اور پہلے مردوں کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا تم میں کوئی ایسا ہے جو اپنی بیوی کے پاس آ کر، دروازہ بند کر لیتا ہے اور پردہ ڈال لیتا ہے اور اللہ کے پردے میں چھپ جاتا ہے؟، لوگوں نے جواب دیا: ہاں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے بعد وہ لوگوں میں بیٹھتا ہے اور کہتا ہے: میں نے ایسا کیا میں نے ایسا کیا، یہ سن کر لوگ خاموش رہے، مردوں کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی جانب متوجہ ہوئے اور ان سے بھی پوچھا کہ: کیا کوئی تم میں ایسی ہے، جو ایسی باتیں کرتی ہے؟، تو وہ بھی خاموش رہیں، لیکن ایک نوجوان عورت اپنے ایک گھٹنے کے بل کھڑی ہو کر اونچی ہو گئی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھ سکیں اور اس کی باتیں سن سکیں، اس نے کہا: اللہ کے رسول! اس قسم کی گفتگو مرد بھی کرتے ہیں اور عورتیں بھی کرتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جانتے ہو ایسے شخص کی مثال کیسی ہے؟، پھر خود ہی فرمایا: اس کی مثال اس شیطان عورت کی سی ہے جو گلی میں کسی شیطان مرد سے ملے، اور اس سے اپنی خواہش پوری کرے، اور لوگ اسے دیکھ رہے ہوں۔ خبردار! مردوں کی خوشبو وہ ہے جس کی بو ظاہر ہو رنگ ظاہر نہ ہو اور خبردار! عورتوں کی خوشبو وہ ہے جس کا رنگ ظاہر ہو بو ظاہر نہ ہو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مجھے موسیٰ اور مومل کے یہ الفاظ یاد ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار! کوئی مرد کسی مرد اور کوئی عورت کسی عورت کے ساتھ ایک بستر میں نہ لیٹے مگر اپنے باپ یا بیٹے کے ساتھ لیٹا جا سکتا ہے۔ راوی کا بیان ہے کہ بیٹے اور باپ کے علاوہ ایک تیسرے آدمی کا بھی ذکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا جو میں بھول گیا وہ مسدد والی روایت میں ہے، لیکن جیسا یاد رہنا چاہیئے وہ مجھے یاد نہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الأدب 36 (2787)، سنن النسائی/الزینة 32 (5120، 5121)، (تحفة الأشراف: 15486)ویأتی ہذا الحدیث فی الحمام (4019)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/541) (حسن لغیرہ) (اس کا ایک راوی شیخ طفاوة مبہم ہے، لیکن شاہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب 4024)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف / يأتي:4019 ¤ شيخ من طفاوة : لا يعرف (تق:8500) ولبعض الحديث شواهد ۔

Share this: